کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے بعد

الف نظامی

لائبریرین
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کرائسٹ چرچ کے واقعے کے بعد ملک میں اسلحے سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی جائیں گی۔
"کابینہ کے آئندہ پیر کو ہونے والے اجلاس سے پہلے میں ذرائع ابلاغ اور عوام کو ان فیصلوں مزید تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں ،ہمارا اصل مقصد دہشت گردی کے اس ہولناک واقعے کے دس دن کے اندر اندر اصلاحات کرنا ہے تاکہ اپنی کمیونٹی کو محفوظ بنایا جا سکے ، ہم نے بطورِ کابینہ فیصلہ کیا ہے اور ہم متحد ہیں"

پیر کو کابینہ کے اجلاس میں اسلحہ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جو گذشتہ ہفتہ کرائسٹ چر چ کی دو مساجد پر ہونے والے مہلک حملے میں 50 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

کرائسٹ چرچ کی مساجد میں حملے کے الزام میں حکام نے 28 سالہ آسٹریلوی شخص کو حراست میں لیا ہے اور اب تک اس واقعے کے الزام میں صرف اُسے ہی حراست میں لے کر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مقدمے کی آئندہ سماعت پانچ اپریل کو ہو گی۔ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مشتبہ حملہ آور نے ابھی تک وکیل کی خدمات نہیں لی ہیں۔

نیوزی لینڈ کافی پرامن ملک ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح قتل و غارت اور پرتشدد واقعات کی شرح نیوزی لینڈ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
نیوزی لینڈ کی مجموعی آبادی پانچ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور جمعے کو کرائسٹ چرچ میں ہونے والا یہ حملہ مہلک ترین حملہ ہے۔
کرائسٹ چرچ کے حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اسے سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملے اور وہاں مسلمانوں کے قتل عام کی خبر اسکاٹ لینڈ میں بڑے رنج و غم کے ساتھ سنی گئی اور تمام کمیونٹیز اور اسلامی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس کی پُرزور الفاظ میں مذمت کی اور اس مشکل وقت میں مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

اسکاٹ لینڈ کی حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن نے مرکزی جامع مسجد گلاسگو کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو اپنی حکومت کی طرف سے مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ اسکاٹ لینڈ کے جسٹس سیکرٹری حمزہ یوسف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ نکولا سٹرجن نے کہا کہ :
مسلمان ہماری ملٹی کلچرل سوسائٹی کا اہم حصہ ہیں ان کی خدمات معاشرے کے لیے قابل قدر ہیں۔ اس مشکل وقت میں ہم پوری قوت کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم معاشرے میں اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
شام5بجے مسلم کونسل آف اسکاٹ لینڈ کے زیراہتمام بکنین اسٹریٹ میں ایک جلسہ عام منعقد کیا، کونسل کے صدر ڈاکٹر حبیب رفیق نے کہا کہ مسلم کمیونٹی نیوزی لینڈ کے واقعہ پر بڑی دلبرداشتہ اور خوفزدہ ہے، ہم نے تمام مساجد سے کہا ہے کہ وہ اپنے سیکورٹی انتظامات کو ایک دفعہ پھر چیک کریں۔ ڈاکٹر حبیب رفیق نے کہا کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کی غمازی کرتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے جسٹس سیکریٹری حمزہ یوسف نے کہا کہ دہشت گردی کے یہ واقعات معاشرے کو تقسیم کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہیں لیکن ہم ایسی سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ لیبر پارٹی اسکاٹ لینڈ کے چیئرمین رچرڈ لیونارڈ نے کہا کہ ہم ہر قسم کے اسلامو فوبیا، انٹی سٹمیزم اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے۔ ہم اس صورتحال پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔ نسل، مذہب، رنگ اور کسی بھی قسم کے امتیاز سے بالاتر ہوکر مل جل کر کام کرنا ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے نیوزی لینڈ کے حکام کی جاری کردہ ایک فہرست کی تفصیلات اپنی ایک ٹویٹ میں شائع کیں، ان کے مطابق کرائسٹ چرچ کی دونوں مساجد میں مارے جانے والے چھ پاکستانی شہریوں کے نام یہ ہیں:
  1. سہیل شاہد
  2. سید جہاں داد علی
  3. سید اریب احمد
  4. محبوب ہارون
  5. نعیم رشید
  6. اور نعیم رشید کا نابالغ بیٹا طلحہ نعیم
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ان حملوں کے بعد کرائسٹ چرچ میں رہنے والے کم از کم تین پاکستانی شہری ابھی تک لاپتہ ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
’ایک پرامن اور مہربان معاشرے پر حملہ‘
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ہفتے کے روز کہا کہ آسٹریلیا کے جس اٹھائیس سالہ شہری نے جمعے کی سہ پہر کرائسٹ چرچ کی النور اور لِن وُوڈ مساجد میں نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کیے، اس نے دراصل اس ’’تنوع، مہربان رویوں اور ہمدردی پر حملہ کیا ہے، جن کی نمائندگی نیوزی لینڈ کرتا ہے۔‘‘
وزیر اعظم آرڈرن نے مزید کہا، ’’اس حملے کے ذمے دار آسٹریلوی شہری نے قانونی طور پر پانچ آتشیں ہتھیار خریدے تھے، جن میں وہ دو سیمی آٹومیٹک رائفلیں بھی شامل تھیں، جو ان حملوں میں استعمال کی گئیں۔‘‘
 

الف نظامی

لائبریرین
دفتر خارجہ نے کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کے نتیجے میں 9 پاکستانیوں کے شہید ہونے کی تصدیق کردی۔
ٹوئٹر پر ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں مزید 3 پاکستانیوں
ذیشان رضا ،ان کے والد غلام حسین اور والدہ کرم بی بی کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے
جس کے بعد جام شہادت نوش کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ شہداء کے خاندانو ں سے رابطے میں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیوزی لینڈ کی مجموعی آبادی پانچ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے
یہ اخباری مراسلہ نگار کی فاش غلطی ہے، نیوزی لینڈ کی کل آبادی پانچ ملین (پچاس لاکھ) کے قریب ہے اور شاید مراسلہ نگار نے ایک ملین کو ایک کروڑ سمجھ لیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آصف محمود لکھتے ہیں:
نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں ہونے والا قتل عام بتا رہا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اب عسکریت کی صورت میں سامنے آ رہی ہے، اسے عسکری اسلاموفوبیا کہا جا سکتا ہے۔ مسلم معاشرے تو عسکریت کے نتائج بھگت چکے، اب شاید مغرب کی باری ہے۔ آج تک مغرب نے بہت دور سے بیٹھ کر دوسروں کے سماج کو جلتے دیکھا ہے۔ یہ شعلے اب اس کے اپنے سماج کو اپنی لپیٹ میں لینے والے ہیں۔ بہت جلد اسے معلوم ہو جائے گا معاشروں میں عسکریت پسندی پیدا ہو جائے تو اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ مغرب کی القاعدہ مغربی سماج کی دہلیز پر کھڑی دستک دے رہی ہے، اب یہ فیصلہ مغرب کا اپنا ہو گا اسے کواڑ مقفل رکھنے ہیں یا انہیں کھول کر اس جنون کو گلے لگانا ہے۔
گارجین کی20 جون 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں74 ایسے گروپ کام کر رہے ہیں جن کا مقصد لوگوں میں مسلمانوں کا خوف پیدا کرنا اور ان سے نفرت کے جذبات کو فروغ دینا ہے اور اس کام کے لیے اس گروپوں کو 206 ملین ڈالر دیے گئے ہیں ۔ برمنگھم سٹی یونیورسٹی کے انٹر نیشنل جرنل آن سائبر کرمنالوجی میں ’اسلامو فوبیا آن سوشل میڈیا‘ کے عنوان سے2016 ء میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ مغربی میڈیا اہتمام سے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہے ۔ اسی بات کو فاکس نیوز کے برائن کلمیڈ نے یوں بیان کیا کہ بھلے ہر مسلمان دہشت گرد نہ ہو لیکن ہر دہشت گرد لازما مسلمان ہوتا ہے۔ایف بی آئی کے مطابق امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے صرف 6 فیصد میں مسلمان ملوث پائے گئے۔ لیکن یونیورسٹی آف الینائس کے پروفیسر ٹراوس ڈکسن کے مطابق امریکی میڈیا میں زیر بحث آنے والے دہشت گردی کے 86 فیصد واقعات صرف وہ تھے جن میں مسلمان ملوث تھے۔ گویا میڈیا نے اپنے وقت کا 86 فیصد حصہ صرف ان 6 فیصد واقعات پر صرف کر دیا جن میں مسلمان ملوث تھے اوران 94 فیصد واقعات کو صرف 14 فیصد کوریج ملی جن میں غیر مسلم ملوث تھے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محمد عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
نائن الیون کے بعد خاص طور سے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا گیا۔ شروع میں امریکہ کی مسلم تنظیموں اور بعد میں دنیا بھر کے فہمیدہ حلقوں نے یہ بات بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں اور دہشت گرد تنظیموں میں فرق کیا جائے ؟ دہشت گردی کے اپنے اسباب، وجوہات اور مائنڈ سیٹ ہوتا ہے۔ شروع وہ مذہبی شدت ، نسل پرستی، لسانی یا کسی بھی ایشو کی وجہ سے ہوجائے، مگر بعد میں ہر دہشت گرد تنظیم ایک خاص پیٹرن پر ہی کام کرتی ہے اور خاص انداز ہی سے اس کا خاتم ہوسکتا ہے۔ مغرب میں مختلف وجوہات کی بنا پر بعض حکومتوں نے بھی اسلاموفوبیا کے جذبات کی حوصلہ افزائی کی۔ یوں مسلمانوں کو نفرت کی ایک بڑی لہر سے واسطہ پڑا۔ خاصے مصائب سہنے کے بعد پچھلے دو چار برسوں سے صورتحال قدرے بہتر ہوئی ، مگر اب نیا فتنہ سفید فام جذبہ برتری سے سرشاردہشت گردوں کی صورت میں آیا ہے۔ کرائسٹ چرچ جیسا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک نئے انتہائی خطرناک ، لہو رنگ ٹرینڈ کی خبر دے رہا ہے۔ اگر نسل پرستی کو روکا نہ گیاتو پھر اس طرح کے واقعات مختلف جگہوں پر ہوتے نظر آئیں گے۔

مغربی سماج کا فیبرک بھی ادھڑنا شروع ہوجائے گا۔ ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کے خلاف سرگرم شدت پسند مذہبی تنظیموں کی دہشت گردی کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان میں خاصا کچھ سیاسی جبر، امریکہ جیسی سپرپاور کا غاصبانہ ایجنڈا‘ بھارت و اسرائیل کی ناجائز حمایت اور مسلمانوں کو دبانے کا عمومی رویہ ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کو سمجھنا اور آسان ہے۔القاعدہ کا پہلے سے وجود تھا، لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی نے امریکہ کے خلاف جذبات کو سو سے ضرب لگا دی ۔ القاعدہ کو بہت سے ریکروٹ اسی وجہ سے ملے بلکہ ٹی ٹی پی جیسی بدترین دہشت گرد تنظیم کو بھی زیادہ تر افرادی قوت امریکہ کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے اور پاکستانی فوج کو امریکی پراکسی آرمی قرار دے کر ملی۔ یہ خود کش بمبا ر جنہوں نے پاکستان میں ہزاروں لوگ شہید کئے، دراصل یہ اپنی دانست میں امریکیوں اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ایسا کیوں کر رہے تھے، اس لئے کہ امریکی فوج نے افغانستان پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے ۔

یہی وہ بیانیہ ہے جسے مذہبی دہشت گرد تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔اس کے برعکس سفید فام نسل پرست دہشت گردی صرف اور صرف نسلی برتری ، غیر سفید فاموں کے لئے بیزاری،امریکہ اور یورپ میں پناہ لینے والے تارکین وطن کے خلاف نفرت اورمقامی وسائل آنے والوں میں شیئر ہوجانے کے حوالے سے ہے۔ یہ الگ نوعیت کی دہشت گردی ہے اور اس میں سراسر خبط عظمت، نسلی جنون اور پاگل پن کی حد تک پہنچی تہذیبی نرگسیت موجود ہے۔ اس لئے مغرب کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اور مغرب سے پھوٹنے والی دہشت گردی دونوں کا موازنہ درست نہیں۔ واضح رہے کہ مقصد مذہبی یاخود کو مسلمان کہلانے والی دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ فراہم کرنا ہرگز نہیں۔ وہ بھی دہشت گردہیں، کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں۔بتانا یہ تھا کہ دونوں کے اسباب الگ ہیں، اس لئے اس کا تدارک بھی مختلف انداز میں کیا جائے۔ مغرب خاص کر امریکہ اگر اپنے رویے پر نظرثانی کرے، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل پر دبائو ڈال کر فلسطین کا منصفانہ حل نکال لے، ریاستوں کو دبانے کی روش چھوڑ دے تو مغرب کے خلاف انتہا پسندی اور دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی۔ سفید فام نسل پرست دہشت گردی تب بھی جاری رہے گی، کیونکہ یہ کسی ظلم کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کرنے کی نیت سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے لئے نسل پرستانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

ایک اہم پہلو نیوزی لینڈ کی حکومت اور خاتون وزیراعظم کا نہایت مثبت، قابل تحسین رویہ رہا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے دن ہی سے اس سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا اور بغیر لفظ چبائے درست موقف اپنایا۔ اپنے شہریوں کے غم ، دکھ میں وہ شریک ہوئیں۔ انہوں نے امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے حکمرانوں کو عملی طور پر بتایا کہ درست طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ حکومتی سطح پر ایک بڑا اہم فیصلہ فوری ہتھیاروں پر پابندی لگا کر کیا۔ صرف ایک دن کے اندر آٹو میٹک اور سیمی آٹو میٹک اسلحہ پر پابندی لگا دی۔ یقینی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فعال بنانے کے ساتھ پولیس اور دیگر محکموں کو بھی متحرک کیا گیا ہوگا۔

امریکہ کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ وہاں جنونیوں کی فائرنگ سے بے شمار اموات ہوچکی ہیں، مگر گن ایسوسی ایشن کی قوت کے باعث آج تک ہتھیاروں پر پابندی نہیں لگ سکی۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی نیوزی لینڈ کے اس رویے سے سیکھنا چاہیے۔ ہماری حکومتوں نے غفلت کا مظاہرہ کئے رکھا ، جس سے بہت سی اموات ہوئیں۔ اب کوئٹہ میں ہزارہ کلنگ کا معاملہ دیکھ لیجئے، وہاں کی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر پہلے سانحے کے بعد پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہوتے تو شائد اتنا نقصان نہ ہوپاتا۔ اس المیہ سے مغرب کے ساتھ ہم بھی خاصا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کرائسٹ چرچ کے سانحے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا ارڈرن کو فون کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی پرنیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم نیوزی لینڈ جسینڈا ارڈرن نے فون پر گفتگو کے دوران کہا کہ آپ کے قابل تحسین اقدامات پر پاکستانی قوم آپ کی شکر گزار ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کرائسٹ چرچ کے جمعہ اجتماع میں غیرمسلموں سمیت ہزارہا انسانوں کی شرکت ❤️❤️❤️
54516881_2377991452224836_3821581682876612608_n.jpg

54523621_2377991582224823_406270439816429568_n.jpg

54516291_2377991628891485_5173866391018668032_n.jpg

54434904_2377991662224815_1855526713409142784_n.jpg
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعدپولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کو ٹوئٹر پر ایک بندوق کی تصویر بھیجی گئی، جس کے ساتھ یہ کیپشن درج تھا کہ 'اس کے بعد آپ کی باری ہے'۔دھمکی دینے والے شخص کے ٹوئٹر اکانٹ معطل ہونے سے 48 گھنٹے قبل اس تصویر کو پوسٹ کیا گیا تھا، تاہم مختلف لوگوں کی جانب سے اسے رپورٹ کرنے کے بعد اکانٹ کو معطل کردیا گیا۔

اس کے علاوہ جیسنڈ آرڈرن اور نیوزی لینڈ پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے پوسٹ کی گئی دیگر تصویر میں 'اگلے آپ ہیں' لکھا ہوا تھا۔ٹوئٹر کی جانب سے معطل کیے گئے اکانٹ پر اسلام مخالف مواد اور سفید فام نفرت انگیز تقاریر موجود تھیں۔

اس حوالے سے پولیس کی ترجمان نے ہیرالڈ کو بتایا کہ 'پولیس ٹوئٹر پر کیے جانے والے تبصروں سے باخبر ہے اور انکوائریز عمل میں لائی جارہی ہیں'واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے میں 50 افراد کی شہادت پر حمایت کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ پر ٹوئٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
 
Top