کاشفی
محفلین
کراچی، متحدہ کے بائیکاٹ کے باوجود پی ٹی آئی کیلیے سیٹ نکالنا مشکل
کراچی: این اے 250 کے 43 پولنگ اسٹیشنوں پر آج دوبارہ پولنگ ہو رہی ہے، متحدہ قومی موومنٹ ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
مذکورہ جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کو کراچی کی یہ سیٹ جیتنے کیلیے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کا زیادہ انحصار ٹرن آؤٹ پر ہے، کیونکہ زیادہ امکان ہے کہ اس نشست کا نتیجہ 11 مئی کو 137 پولنگ اسٹیشنوں پر کاسٹ ووٹوں سے ہی برآمد ہوگا، پاکستان تحریک انصاف نے ایک بات تو اچھی کی کہ اس نے دھرنے سے اپنے کارکنوں کو سرگرم رکھا تاہم اس کے امیدوار عارف علوی کی قسمت کا فیصلہ ٹرن آؤٹ سے منسلک ہے جو ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے متاثر ہو سکتا ہے ، اگر ایم کیو ایم کے آج کے پولنگ بائیکاٹ کے باوجود اس کا امیدوار جیت جاتا ہے تو یہ پی ٹی آئی کیلیے حیران کن مگر مجموعی طور پر دلچسپ ہو گا، این اے 250 کے 180 پولنگ اسٹیشنوں میں سے 137 پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں کے بارے میں اطلاعات مختلف ہیں تاہم مقابلہ بڑا سخت ہے۔
کراچی کا یہ حلقہ مڈل اور اپر مڈل کلاس لوگوں پر مشتمل ہے تاہم کہیں کہیں لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی موجود ہیں، کراچی کے دوسرے حلقوں کی نسبت یہاں کے لوگ 1988 سے ہی منقسم مینڈیٹ دیتے رہے ہیں، یہاں سے ایم کیو ایم کے امیدوار تین مرتبہ(سید طارق محمود 2 بار، خوش بخت شجاعت ایک بار) ، مسلم لیگ کے حلیم صدیقی دو مرتبہ جبکہ جماعت اسلامی کے عبدالستارافغانی مرحوم ایک مرتبہ جیتے ہیں، 2008 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت (52045ووٹ) اور پیپلزپارٹی کے امیدوار اختیار بیگ (44412 ووٹ) میں زبردست مقابلہ ہوا تھا، اس حلقے سے جو بھی امیدوار جیتا ہے وہ کبھی بڑے فرق سے نہیں جیتا، دوسرے نمبر پر آنیوالے امیدوارنے بھی ہمیشہ اچھے خاصے ووٹ لیے ہوتے ہیں، اس حلقے کا ٹرن آئوٹ اوسطاً 32سے 34 فیصد رہا ہے۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ ایم کیو ایم الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہے ا س سے پہلے اس نے 1993 میں بائیکاٹ کیا تھا جس کا فائدہ مسلم لیگ نے اٹھایا اور اس کے سابق وفاقی وزیر حلیم صدیقی 3384 ووٹ لے جیت گئے، حلیم صدیقی نے 1997 میں بھی یہ سیٹ جیت کر ایم کیو ایم کو حیران کر دیا تھا، اس وقت ایم کیو ایم کے امیدوار ایم اے جلیل نے 25008 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ کے امیدوار نے 31414 ووٹ حاصل کیے تھے،اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیڈر ناظم حاجی نے 1821 ووٹ حاصل کیے تھے،بہرکیف اس وقت ابھی پی ٹی آئی کا آغاز تھا، 2002 کے الیکشن میں تو پی ٹی آئی کہیںنہیں تھی جبکہ 2008 کے الیکشن میں اس نے حصہ نہیں لیا ، 2007 میں وکلاء تحریک اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کی پانچ سالہ بری حکمرانی نے پی ٹی آئی کو ملک کے مختلف حصوں میں ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔
11 مئی کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے کراچی میں سندھ اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی ہے تاہم حیران کن طور پر اس کے امیدوارکئی حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہے، بعض امیدواروں نے جماعت اسلامی کے الیکشن بائیکاٹ سے فائدہ اٹھایا، کراچی میں روائتی طور پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے امیدوار وں میں ہی مقابلہ ہوتا ہے اور وہی کراچی کی سیٹوں میں حصہ دار بنتے ہیں تاہم اب مسلم لیگ اور اے این پی والے بھی نظر آنے لگے ہیں کیوں کہ بعض حلقوں میں پنجابی اور پشتون بڑی تعداد میں موجود ہیں، مسلم لیگ گزشتہ چند انتخابات سے کچھ سیٹیں بھی جیت رہی ہے اور اس الیکشن میں بھی اس نے کراچی سے نمائندگی حاصل کی ہے، ایک سابق مشیر عرفان اللہ مروت نے سندھ اسمبلی کی سیٹ بھی جیت لی ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی نے نہ صرف پشتونوں بلکہ نوجوانوں ، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس طبقے کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔
حلقہ 250 ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ حلقہ ایم کیو ایم کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو بھی منتقل ہوتا رہا ہے، دوسری جماعتیں جنھوں نے یہاں سے کامیابی حاصل کی ان کی حلقے میں تیسری پوزیشن رہی ہے ، اس حلقے میں جماعت اسلامی کے 15 ہزارسے 30 ہزار ووٹ ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے 12 سے 20 ہزار ووٹ ہیں، اگر ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت اور جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ( فنی اعتبار سے وہ ابھی امیدوار ہیں) جیسے مضبوط امیدواروں کی موجودگی میں پی ٹی آئی کے عارف علوی کیلیے قومی اسمبلی کا راستہ بنانا بہت ہی مشکل ہے، ایم کیوا یم، پی پی پی اور جماعت اسلامی کے بائیکاٹ سے پی ٹی آئی کے عارف علوی کو معمولی برتری ضرور مل سکتی تاہم پھر وہی بات کہنا پڑتی ہے کہ 137 پولنگ اسٹیشنوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کو کتنے ووٹ پڑے اور آج چھٹی والے دن 43 پولنگ اسٹیشنوں کیلیے ٹرن آئوٹ کیا رہتا ہے، اب بھی ایم کیو ایم کا ووٹر خاموشی سے ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔