ذاتی کتب خانہ کراچی انٹرنیشنل بک فیئر 2018 سے خریدی گئی کتب

میرے ساتھ بھی ایسا کئی بار ہوا ہے لیکن وہ اس وجہ سے کہ میں کئی برس سے آن لائن کتابیں منگوا رہا ہوں سو ایسی کتاب آ جانے کا چانس زیادہ ہوتا ہے سو اب کوئی کتاب آن لائن خریدنے سے پہلے اس کے بارے میں معلومات بھی ویب سے حاصل کرتا ہوں۫۔ باقی اگر دکان یا اسٹال سے خود خریدنی ہو تو مفتی صاحب کا مشورہ درست ہے، ورق گردانی سے کتاب کے بارے میں کافی کچھ علم ہو جاتا ہے۔
تاہم طریقۂ ہذا خطرۂ عزت و ناموس سے خالی نہیں کہ ایسی ہی پھوکٹ کی ورق گردانیوں کے دوران مابدولت کو نگاہ خشمگیں اور بسا اوقات کتب کے جھپٹے جانے کے تجربۂ ہتک آمیز سے واسطہ پڑا ہے ، اور مبینہ ہر دو اعمال ناپسندیدہ کے عامل وہاں کا زود رنج کتب فروش ہی ہوتا !:):)
 

محمد وارث

لائبریرین
سر آپ عنوان دیکھیے اور بتائیے کہ ایسا عنوان دیکھ کر دل کی کیا حالت ہوتی ہے! کل ہی ہم نے بک اسٹور پر ’’خطباتِ اقبال میں قرآنی حوالے اور مباحث‘‘ دیکھی اور ایک بار پھر آنکھ بند کرکے کتاب خریدلی۔ اس مرتبہ قسمت نے یاوری کی اور ایک اچھی کتاب ہاتھ آئی۔
جی یہ کتاب میرے پاس بھی ہے اور واقعی عمدہ کتاب ہے۔

باقی عنوان سے دھوکہ کھانا تو شاید کتاب خریدنے والوں کی قسمت میں ہے۔ ابھی پچھلے ماہ میں نے کچھ آن لائن کتابیں خریدی تھیں ان میں ایک کتاب تھی 'Pakistan: the first twelve years' خاصی ضخیم کتاب ہے اور میں بہت خوش تھا کہ پاکستان کی شروع کی تاریخ کافی تفصیل سے پڑھنے کو ملے گی۔ لیکن کتاب ہاتھ میں آئی تو علم ہوا کہ یہ کتاب اصل میں 'پاکستان ٹائمز' کے ایڈیٹر مظہر علی خان صاحب کے ایڈیٹوریلز ہیں۔ گو مظہر علی خان صاحب کا نام اپنی جگہ مسلم ہے اور ان اداریوں کی اہمیت بھی لیکن کہاں ایک مستقل تاریخ کی کتاب اور کہاں دو دو چار چار صفحوں کے سینکڑوں ادارتی کالمز جن میں بے شمار ایسے مسائل پر بات ہے جن کی اب اہمیت ہی نہیں رہی مثال کے طور سگریٹوں کی قلت یا اسمگلنگ۔ :)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تاہم طریقۂ ہذا خطرۂ عزت و ناموس سے خالی نہیں کہ ایسی ہی پھوکٹ کی ورق گردانیوں کے دوران مابدولت کو نگاہ خشمگیں اور بسا اوقات کتب کے جھپٹے جانے کے تجربۂ ہتک آمیز سے واسطہ پڑا ہے ، اور مبینہ ہر دو اعمال ناپسندیدہ کے عامل وہاں کا زود رنج کتب فروش ہی ہوتا !:):)
جی اس کا حل بھی میرے پاس تھا۔ 'تھا' اس لیے کہ اب میں خود کہیں جا کر کتابیں کم ہی خریدتا ہوں۔ وہ حل یہ تھا کہ کسی بُک شاپ یا پرانی کتابوں کے اسٹال پر جاتے ہی دو تین کتابیں اٹھا کر علیحدہ کر لیتا تھا کہ یہ 'خرید' لی ہیں، اس سے دکاندار سمجھ جاتا تھا کہ یہ سنجیدہ خریدار ہے اور "پھوکٹ" میں ورق گردانی کرنے نہیں آیا۔ ایک بار ان کو اس بات کا یقین ہو جائے تو پھر وہ مدد بھی کرتے ہیں اور کتابیں نکال نکال کر بخوشی دکھاتے بھی ہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
جی اس کا حل بھی میرے پاس تھا۔ 'تھا' اس لیے کہ اب میں خود کہیں جا کر کتابیں کم ہی خریدتا ہوں۔ وہ حل یہ تھا کہ کسی بُک شاپ یا پرانی کتابوں کے اسٹال پر جاتے ہی دو تین کتابیں اٹھا کر علیحدہ کر لیتا تھا کہ یہ 'خرید' لی ہیں، اس سے دکاندار سمجھ جاتا تھا کہ یہ سنجیدہ خریدار ہے اور "پھوکٹ" میں ورق گردانی کرنے نہیں آیا۔ ایک بار ان کو اس بات کا یقین ہو جائے تو پھر وہ مدد بھی کرتے ہیں اور کتابیں نکال نکال کر بخوشی دکھاتے بھی ہیں۔ :)
واہ! ہم سمجھے، یہ ترکیب صرف ہمیں معلوم ہے۔ بس، فرق اتنا ہے کہ ہم جاتے ہی ایک آدھ کتاب 'خرید'لیتے ہیں اور دکان دار کے پاس بطور 'امانت' رکھوا دیتے ہیں اور یہ کتاب عام طور پر بغور دیکھے پرکھے بغیر خرید لی جاتی ہے۔ یوں، دکان کے سیلز مین یا مالک اس خیال سے ہماری 'نگرانی' ترک کر دیتے ہیں کہ بندہ محض معائنہ کے لیے تشریف لایا ہوا 'ڈاکٹر'نہیں ہے بلکہ وہ نادان پنچھی ہے جو خودبخود جال میں پھنس گیا۔ اور یوں ہم، من پسند کتب کا انتخاب دیر سے کرتے ہیں اور آخر میں 'خریدی'گئی کتاب شکریہ کے ساتھ دکان دار کو واپس تھما دیتے ہیں کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ :) ویسے، پاکستانیوں کو واقعی کاروبار کرنا نہیں آتا ہے۔ اگر یہی دکان دار گاہکوں کو عزت و تکریم دیں تو ان کی سیلز تین چار گنا بڑھ سکتی ہیں مگر یہاں یہ توقع کی جاتی ہے کہ جو گاہک شاپ میں آئے، وہ کتاب ضرور بالضرور خریدے۔ یہ رویہ بعض اوقات ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top