سید اسد محمود
محفلین
کراچی:تحریک انصاف نے کس کا ووٹ بینک توڑا
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: جمعرات 16 مئ 2013 , 16:19 GMT 21:19 PST
کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حالیہ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے پاکستان تحریکِ انصاف دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
تحریکِ انصاف کو کراچی شہر سے بڑے پیمانے پر ووٹ ملے ہیں، شہر کے کئی علاقوں میں ہر تیسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے بلے کو ووٹ دیا، اس سے پہلے لوگ کھل کر یہ اظہار نہیں کرتے تھے۔
تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم کا جوش و خروش پنجاب میں رہا اور کراچی میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکا، لیکن انتخابات میں نتائج غیر متوقع طور پر تحریکِ انصاف کے حق میں آئے۔
تحریک انصاف نے اب تک صرف صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب حاصل کی ہے، پشتون آبادی کے اکثریتی علاقے کے صوبائی حلقے پی ایس 93 سے سید حفیظ الدین ساڑھے 15 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں، یہاں دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے عبدالرزاق آئے ہیں۔
گذشتہ انتخابات میں اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کےامیر نواب کامیاب ہوئے تھے اور دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم نے 14 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
حالیہ انتحابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر جان یہاں سے امیدوار تھے، بشیر جان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نیا ووٹر سامنے آیا ہے۔
بشیر جان کے مطابق اس حلقے میں دو بم دھماکے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں ووٹ ملے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں پی پی پی کے امیدوار شاہجہان بلوچ نے 84 ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں، ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سبحان علی تھے، جن کو 26 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
اسی حلقے میں گذشتہ انتخابات میں نبیل گبول نے تقریباً ساڑھے 84 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار وسیع اللہ لاکھو کے حصے میں چھ ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ آئے تھے۔
نوجوان کو ساتھ ملانے کی کوشش
کراچی کے علاقے کیماڑی ٹاؤن سے این اے 239 پر گذشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل تقریباً 57 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، حالیہ انتخابات میں وہ 29 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر چلے گئے، اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کے سلمان بلوچ 39 ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار سبحان علی 34 ہزار ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری تاج حیدر کا کہنا ہے کہ لوگوں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ ملک میں شفاف انتخاب ہوں اور نوجوان حصہ لیں۔
انہوں نے یہ تو واضح طور پر نہیں کہا کہ ان کے ووٹروں یا ہمدردوں میں کمی آئی ہے تاہم ان کا موقف تھا کہ جو اشرافیہ ملک کے سیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلک رہتی تھی، اس نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا اور جمہوری نقطۂ نظر سے یہ ایک بڑی مثبت بات ہے۔ بقول تاج حیدر کے ان کی جماعت کوشش کرے گی کہ اس نوجوان کو اپنے ساتھ ملائیں۔
کراچی وسطی کے علاقے اور متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ حلقہ این اے 246 سے تحریک انصاف کو 32 ہزار ووٹ ملے، اس نشست پر ایم کیو ایم کے نبیل گبول ایک لاکھ 39 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے ہی فیضان یوسف ایک لاکھ 86 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے مخالف پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سہیل انصاری صرف 6741 ووٹ لے سکے تھے۔
شہر کے صوبائی حلقے پی ایس 126 پر تحریک انصاف کے امیدوار سیف الرحمان نے ساڑھے 23 ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں، اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل سبزواری نے دوسری بار کامیابی حاصل کی، انہیں 39 ہزار کے قریب ووٹ حاصل ہوئے، جب کہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 43 ہزار کے قریب تھی اور مخالف امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے حکیم بلوچ نے 30 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما واسع جلیل کا کہنا ہے کہ کراچی کئی قوموں کا شہر ہے، ان قومیتوں نے بنیادی طور پر ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ دیا ہے جس کے لیے انھوں نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اتنی بڑی کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کیونکہ متحدہ کا ہمدرد یا ووٹر اس کے ساتھ رہا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے مینڈیٹ میں کمی آتی، یہاں تو ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور حلقے این اے 250 سے امیدوار عارف علوی واسع جلیل کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا روایتی ووٹر اس بار ان کے پاس آیا ہے۔
عارف علوی کا کہنا ہے کہ پچھلے بیس سال کے اندر کراچی نے متحدہ کو مینڈیٹ دیا لیکن اس شہر کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔معاشی طور پر، بیروزگاری، مہنگائی، امن امان کے حوالے سے عوام ہڑتالوں اور ٹارگٹ کلنگ سے تنگ ہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی بھی ماضی میں ہمدردوں اور ووٹروں کا ایک بڑا حلقہ رکھتی تھی، لیکن اس نے دوسری بار انتحابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جماعت کا ووٹ بھی تحریک انصاف کے پاس گیا۔
جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ کا کہنا ہے کہ ووٹ کسی کو بھی ملے وہ اس کا احترام کرتے ہیں، ماضی میں بھی ایسے لہریں اٹھتی رہی ہیں۔
نصراللہ کے مطابق جماعت اسلامی نے کراچی کی خدمت کی ہے، یہاں دو بار جماعت اسلامی کے میئر رہے، انھوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا مقابلہ کیا، اور اگر کراچی کے عوام کسی اور جماعت کو چاہتے ہیں تو وہ خیرمقدم کرتے ہیں۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: جمعرات 16 مئ 2013 , 16:19 GMT 21:19 PST
کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حالیہ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے پاکستان تحریکِ انصاف دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
تحریکِ انصاف کو کراچی شہر سے بڑے پیمانے پر ووٹ ملے ہیں، شہر کے کئی علاقوں میں ہر تیسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے بلے کو ووٹ دیا، اس سے پہلے لوگ کھل کر یہ اظہار نہیں کرتے تھے۔
تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم کا جوش و خروش پنجاب میں رہا اور کراچی میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکا، لیکن انتخابات میں نتائج غیر متوقع طور پر تحریکِ انصاف کے حق میں آئے۔
تحریک انصاف نے اب تک صرف صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب حاصل کی ہے، پشتون آبادی کے اکثریتی علاقے کے صوبائی حلقے پی ایس 93 سے سید حفیظ الدین ساڑھے 15 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں، یہاں دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے عبدالرزاق آئے ہیں۔
گذشتہ انتخابات میں اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کےامیر نواب کامیاب ہوئے تھے اور دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم نے 14 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
حالیہ انتحابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر جان یہاں سے امیدوار تھے، بشیر جان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نیا ووٹر سامنے آیا ہے۔
بشیر جان کے مطابق اس حلقے میں دو بم دھماکے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں ووٹ ملے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں پی پی پی کے امیدوار شاہجہان بلوچ نے 84 ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں، ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سبحان علی تھے، جن کو 26 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
اسی حلقے میں گذشتہ انتخابات میں نبیل گبول نے تقریباً ساڑھے 84 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار وسیع اللہ لاکھو کے حصے میں چھ ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ آئے تھے۔
نوجوان کو ساتھ ملانے کی کوشش
کراچی کے علاقے کیماڑی ٹاؤن سے این اے 239 پر گذشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل تقریباً 57 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، حالیہ انتخابات میں وہ 29 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر چلے گئے، اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کے سلمان بلوچ 39 ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار سبحان علی 34 ہزار ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری تاج حیدر کا کہنا ہے کہ لوگوں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ ملک میں شفاف انتخاب ہوں اور نوجوان حصہ لیں۔
انہوں نے یہ تو واضح طور پر نہیں کہا کہ ان کے ووٹروں یا ہمدردوں میں کمی آئی ہے تاہم ان کا موقف تھا کہ جو اشرافیہ ملک کے سیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلک رہتی تھی، اس نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا اور جمہوری نقطۂ نظر سے یہ ایک بڑی مثبت بات ہے۔ بقول تاج حیدر کے ان کی جماعت کوشش کرے گی کہ اس نوجوان کو اپنے ساتھ ملائیں۔
کراچی وسطی کے علاقے اور متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ حلقہ این اے 246 سے تحریک انصاف کو 32 ہزار ووٹ ملے، اس نشست پر ایم کیو ایم کے نبیل گبول ایک لاکھ 39 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے ہی فیضان یوسف ایک لاکھ 86 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے مخالف پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سہیل انصاری صرف 6741 ووٹ لے سکے تھے۔
شہر کے صوبائی حلقے پی ایس 126 پر تحریک انصاف کے امیدوار سیف الرحمان نے ساڑھے 23 ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں، اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل سبزواری نے دوسری بار کامیابی حاصل کی، انہیں 39 ہزار کے قریب ووٹ حاصل ہوئے، جب کہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 43 ہزار کے قریب تھی اور مخالف امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے حکیم بلوچ نے 30 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما واسع جلیل کا کہنا ہے کہ کراچی کئی قوموں کا شہر ہے، ان قومیتوں نے بنیادی طور پر ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ دیا ہے جس کے لیے انھوں نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اتنی بڑی کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کیونکہ متحدہ کا ہمدرد یا ووٹر اس کے ساتھ رہا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے مینڈیٹ میں کمی آتی، یہاں تو ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور حلقے این اے 250 سے امیدوار عارف علوی واسع جلیل کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا روایتی ووٹر اس بار ان کے پاس آیا ہے۔
عارف علوی کا کہنا ہے کہ پچھلے بیس سال کے اندر کراچی نے متحدہ کو مینڈیٹ دیا لیکن اس شہر کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔معاشی طور پر، بیروزگاری، مہنگائی، امن امان کے حوالے سے عوام ہڑتالوں اور ٹارگٹ کلنگ سے تنگ ہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی بھی ماضی میں ہمدردوں اور ووٹروں کا ایک بڑا حلقہ رکھتی تھی، لیکن اس نے دوسری بار انتحابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جماعت کا ووٹ بھی تحریک انصاف کے پاس گیا۔
جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ کا کہنا ہے کہ ووٹ کسی کو بھی ملے وہ اس کا احترام کرتے ہیں، ماضی میں بھی ایسے لہریں اٹھتی رہی ہیں۔
نصراللہ کے مطابق جماعت اسلامی نے کراچی کی خدمت کی ہے، یہاں دو بار جماعت اسلامی کے میئر رہے، انھوں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا مقابلہ کیا، اور اگر کراچی کے عوام کسی اور جماعت کو چاہتے ہیں تو وہ خیرمقدم کرتے ہیں۔