محسن وقار علی
محفلین
میں چاہنے کے باوجود اپنے آپ کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے سوال کرنے سے نہ روک سکا اور ان سے پوچھ بیٹھا کہ کیا وجہ ہے کہ جاپانی حکومت گزشتہ بارہ سالوں سے کراچی میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری سے کراچی سرکلر ریلو ے کی تعمیر کے لئے کوشاں ہے اور ہماری حکومت مسلسل حیلے بہانوں سے پاکستان کی ترقی کا سبب بننے والے اس منصوبے کو شروع کرنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اچانک اور اس غیر متوقع سوال کے لئے تیار نہ تھے لہٰذا ماحول میں چند سیکنڈ کا سکوت آیا تاہم وزیراعظم شاید کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ کے معاملے سے آگاہ تھے انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے نوٹس میں ہے اور چند دنوں قبل ہی وفاقی کابینہ میں اس معاملے پر بات چیت بھی ہوئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلاشبہ کراچی سرکلر ریلوے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے انتہائی اہم منصوبہ ہے اور پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی میں اس منصوبے کی تعمیر سے نہ صرف کراچی کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان ریلوے بھی ایک جدید دور میں داخل ہو جائے گا تاہم اس منصوبے کے حوالے سے کچھ معاملات وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان طے ہونا باقی ہیں جس کے لئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور امید ہے کہ عنقریب یہ منصوبہ جاپانی حکومت کے تعاون سے شروع کردیا جائے گا۔ میں اپنی معلومات اور پروجیکٹ کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے مکمل آگاہی رکھنے کے سبب وزیراعظم کے جواب سے مطمئن نہیں تھا تاہم اتنا اطمینان ضرور تھا کہ میں اپنے سوال سے تقریب میں موجود انتہائی اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات اور میڈیا کے سامنے اس مسئلے کو ایک بار پھر زندہ کرنے میں کامیاب ضرور ہوگیا تھا۔
20/اکتوبر2011ء کی شام کراچی میں واقع گورنر ہاؤس میں وزارت تجارت کے تحت ہونے والی وہ تقریب اپنے عروج پر تھی جہاں اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بحیثیت مہمان خصوصی جبکہ وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم ، وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابرغوری، اوورسیز پاکستانیوں کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار سمیت سیکریٹری تجارت ، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو طارق پوری سمیت دنیا کے اہم اور دوست ممالک کے دو درجن سے زائد سفرائے کرام اور بیرون ممالک سے آئے ہوئے سیکڑوں غیر ملکی تاجر اور اہم کاروباری شخصیات موجود تھیں۔ یہ تقریب دراصل ایکسپو پاکستان2011ء کی افتتاحی تقریب تھی جو حفاظتی اقدامات کے پیش نظر ایکسپو سینٹر کے بجائے گورنر ہاؤس میں منعقد کی گئی تھی، جہاں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی افتتاحی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے اپنے دور اقتدار کی کامیابیوں سے میڈیا کو آگاہ کر رہے تھے کہ انہیں اچانک کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے میرے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔
دنیا جانتی ہے کہ ذرائع نقل وحمل انسانی ترقی کا بنیادی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور ذرائع نقل و حمل میں ریلوے نظام کو اولین افادیت حاصل ہے ،اس حوالے سے صرف گزشتہ دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو تھائی لینڈ ہو یا ملائیشیا ، بھارت ہو یا انڈونیشنا، سنگاپور ہو یا دبئی، ان تمام ممالک نے اپنے اپنے ممالک میں سرکلر ریلوے نظام پر بھرپور توجہ دی ہے جس سے ان ممالک میں ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے میں اہم مدد ملی ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایک منصوبے کے تحت ریلوے کو کمزور کیا گیا ہے اور ریلوے کی وزارتیں ہمیشہ ہی ایسے افراد کو دی گئیں جو خود پاکستان میں بسوں اور ٹرکوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور جن کا مقصد ہی ریلوے کو کمزور کر کے بسوں اور ٹرکوں کے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں قائم ہونے والی ریلوے لائنوں کو بھی ہم سنبھالنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور ریلوے کا شعبہ انگریز کے زمانے سے بھی پیچھے جاچکا ہے۔
جہاں تک کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کا تعلق ہے تو اگر اس منصوبے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ منصوبہ1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا تاکہ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں اور سڑکوں پر سے ٹریفک کے رش کو کم کیا جاسکے۔ اس منصوبے کے لئے ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں جس پر سالانہ ساٹھ لاکھ لوگ سفر کرنے کے قابل ہوسکے ،یہ منصوبہ کراچی کے عوام میں بے انتہا مقبول ہوا اور اپنے آغاز کے اگلے دس سالوں میں یعنی 1970ء سے 1980ء تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں جس میں سے80 ٹرینیں اصل ٹریک پر چلا کرتی تھیں جبکہ چوبیس ٹرینیں لوکل لوپ پر چلا کرتی تھیں تاہم1990ء کی دہائی کے آغاز سے ہی ٹرانسپورٹ مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے کے خلاف سازشوں کا آغاز کردیا اسی مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے میں موجود چند کالی بھیڑوں کے ذریعے اس انتہائی اہم منصوبے کے خلاف سازشیں شروع کرا دیں جس سے1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو شدید مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اس منصوبے کی کئی ٹرینوں کو بند کرنا پڑا جس کے بعد بھی نقصانات کا خاتمہ نہ ہو سکا اور اس ادارے میں موجود کالی بھیڑیں اس منصوبے کو دیمک کی طرح چاٹتی رہیں اوربالآخر یہ منصوبہ1999ء میں حکومت کی جانب سے روک دیا گیا تاہم اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر 2005ء میں حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی تو دوست ملک جاپان نے منصوبے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا آسان قرضہ اور تمام تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا تاہم اس منصوبے کے خلاف ٹرانسپورٹ مافیا ایک بار پھر اکٹھا ہوا اور منصوبے کے خلاف سازشوں کا آغاز کردیا۔ اس دفعہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر جعلی قبضے کرائے گئے، دور دراز علاقوں سے لوگوں کو لاکر کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر آباد کرایا گیا ، قبضوں کے خاتمے کے لئے بھاری رقموں کے مطالبے کئے گئے، جاپانی حکام کو خطوط کے ذریعے یہ منصوبہ نہ شروع کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا، دوسری جانب جاپانی حکومت صدر آصف علی زرداری کے دونوں دورہ جاپان کے موقع پر پاکستانی حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جلد سے جلد شروع کرنے کے لئے اپنی رضامندی سے آگاہ کرچکی ہے اور ہر دفعہ جاپان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ بال پاکستان کے کورٹ میں ہے لیکن پاکستان میں اس منصوبے کے لئے اس قدر مسائل پیدا کردیئے گئے ہیں کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت کے اس منصوبے پر اب لاگت بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر ہوگئی ہے۔گزشتہ سال اس منصوبے پر ایک بار پھر کچھ پیشرفت ہوئی ہے تاہم جب تک یہ منصوبہ صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہتا ہے اس وقت تک اس منصوبے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل نظر آتا ہے۔کراچی میں اس منصوبے کو آپریٹ کرنے کے لئے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ادارہ تو قائم ہوا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس ادارے کی کارکردگی سے جاپانی حکام بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ صدر آصف علی زرداری طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں اور سندھ اور کراچی کے مسائل پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر زرداری اس اہم منصوبے پر ذاتی توجہ دیں اور اپنی حکومت کے دوران ہی اس منصوبے کا افتتاح کریں تاکہ کراچی اور پاکستان کی ترقی کا اہم منصوبہ شروع ہو سکے اور اس منصوبے کے ساتھ پیپلزپارٹی کا نام ہمیشہ کے لئے منسلک ہوجائے۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
20/اکتوبر2011ء کی شام کراچی میں واقع گورنر ہاؤس میں وزارت تجارت کے تحت ہونے والی وہ تقریب اپنے عروج پر تھی جہاں اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بحیثیت مہمان خصوصی جبکہ وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم ، وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابرغوری، اوورسیز پاکستانیوں کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار سمیت سیکریٹری تجارت ، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو طارق پوری سمیت دنیا کے اہم اور دوست ممالک کے دو درجن سے زائد سفرائے کرام اور بیرون ممالک سے آئے ہوئے سیکڑوں غیر ملکی تاجر اور اہم کاروباری شخصیات موجود تھیں۔ یہ تقریب دراصل ایکسپو پاکستان2011ء کی افتتاحی تقریب تھی جو حفاظتی اقدامات کے پیش نظر ایکسپو سینٹر کے بجائے گورنر ہاؤس میں منعقد کی گئی تھی، جہاں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی افتتاحی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے اپنے دور اقتدار کی کامیابیوں سے میڈیا کو آگاہ کر رہے تھے کہ انہیں اچانک کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے میرے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔
دنیا جانتی ہے کہ ذرائع نقل وحمل انسانی ترقی کا بنیادی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور ذرائع نقل و حمل میں ریلوے نظام کو اولین افادیت حاصل ہے ،اس حوالے سے صرف گزشتہ دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو تھائی لینڈ ہو یا ملائیشیا ، بھارت ہو یا انڈونیشنا، سنگاپور ہو یا دبئی، ان تمام ممالک نے اپنے اپنے ممالک میں سرکلر ریلوے نظام پر بھرپور توجہ دی ہے جس سے ان ممالک میں ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے میں اہم مدد ملی ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایک منصوبے کے تحت ریلوے کو کمزور کیا گیا ہے اور ریلوے کی وزارتیں ہمیشہ ہی ایسے افراد کو دی گئیں جو خود پاکستان میں بسوں اور ٹرکوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور جن کا مقصد ہی ریلوے کو کمزور کر کے بسوں اور ٹرکوں کے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں قائم ہونے والی ریلوے لائنوں کو بھی ہم سنبھالنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور ریلوے کا شعبہ انگریز کے زمانے سے بھی پیچھے جاچکا ہے۔
جہاں تک کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کا تعلق ہے تو اگر اس منصوبے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ منصوبہ1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا تاکہ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں اور سڑکوں پر سے ٹریفک کے رش کو کم کیا جاسکے۔ اس منصوبے کے لئے ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں جس پر سالانہ ساٹھ لاکھ لوگ سفر کرنے کے قابل ہوسکے ،یہ منصوبہ کراچی کے عوام میں بے انتہا مقبول ہوا اور اپنے آغاز کے اگلے دس سالوں میں یعنی 1970ء سے 1980ء تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں جس میں سے80 ٹرینیں اصل ٹریک پر چلا کرتی تھیں جبکہ چوبیس ٹرینیں لوکل لوپ پر چلا کرتی تھیں تاہم1990ء کی دہائی کے آغاز سے ہی ٹرانسپورٹ مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے کے خلاف سازشوں کا آغاز کردیا اسی مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے میں موجود چند کالی بھیڑوں کے ذریعے اس انتہائی اہم منصوبے کے خلاف سازشیں شروع کرا دیں جس سے1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو شدید مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اس منصوبے کی کئی ٹرینوں کو بند کرنا پڑا جس کے بعد بھی نقصانات کا خاتمہ نہ ہو سکا اور اس ادارے میں موجود کالی بھیڑیں اس منصوبے کو دیمک کی طرح چاٹتی رہیں اوربالآخر یہ منصوبہ1999ء میں حکومت کی جانب سے روک دیا گیا تاہم اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر 2005ء میں حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی تو دوست ملک جاپان نے منصوبے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا آسان قرضہ اور تمام تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا تاہم اس منصوبے کے خلاف ٹرانسپورٹ مافیا ایک بار پھر اکٹھا ہوا اور منصوبے کے خلاف سازشوں کا آغاز کردیا۔ اس دفعہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر جعلی قبضے کرائے گئے، دور دراز علاقوں سے لوگوں کو لاکر کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر آباد کرایا گیا ، قبضوں کے خاتمے کے لئے بھاری رقموں کے مطالبے کئے گئے، جاپانی حکام کو خطوط کے ذریعے یہ منصوبہ نہ شروع کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا، دوسری جانب جاپانی حکومت صدر آصف علی زرداری کے دونوں دورہ جاپان کے موقع پر پاکستانی حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جلد سے جلد شروع کرنے کے لئے اپنی رضامندی سے آگاہ کرچکی ہے اور ہر دفعہ جاپان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ بال پاکستان کے کورٹ میں ہے لیکن پاکستان میں اس منصوبے کے لئے اس قدر مسائل پیدا کردیئے گئے ہیں کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت کے اس منصوبے پر اب لاگت بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر ہوگئی ہے۔گزشتہ سال اس منصوبے پر ایک بار پھر کچھ پیشرفت ہوئی ہے تاہم جب تک یہ منصوبہ صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہتا ہے اس وقت تک اس منصوبے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل نظر آتا ہے۔کراچی میں اس منصوبے کو آپریٹ کرنے کے لئے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نام سے ادارہ تو قائم ہوا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس ادارے کی کارکردگی سے جاپانی حکام بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ صدر آصف علی زرداری طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں اور سندھ اور کراچی کے مسائل پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر زرداری اس اہم منصوبے پر ذاتی توجہ دیں اور اپنی حکومت کے دوران ہی اس منصوبے کا افتتاح کریں تاکہ کراچی اور پاکستان کی ترقی کا اہم منصوبہ شروع ہو سکے اور اس منصوبے کے ساتھ پیپلزپارٹی کا نام ہمیشہ کے لئے منسلک ہوجائے۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک