سرکاری محکموں کے بجٹ سے متعلقہ:
عکسی مفتی کی کتاب " کاغذ کا گھوڑا" سے ایک واقعہ
.
" ایک دن خواجہ شاہد حسین،جو سب ذیلی محکموں کے سب سے بڑے افسر تھے یعنی سیکرٹری وزارتِ سیاحت و ثقافت،اسلام آباد سے ان کا فون آیا۔کہنے لگے۔
یار عکسی مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پانی سم کر رنجیت سنگھ کے دربار کی اہم ترین پینٹنگ کو خراب کر رہا ہے۔یہ بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔اس کی قیمت کئی لاکھ پونڈ ہے۔اس کا ستیاناس ہو جائے گا۔یار تم وہاں ہو فورا اس پینٹنگ کو بچانے کاانتظام کرو۔
.
میں نے اسی وقت ڈایئرکیٹر نارتھ جس کا دفتر عین سامنے تھا فون کیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک سیڑھی فراہم کی جائے تاکہ میں حویلی کی چھت پر جا سکوں۔ڈائریکٹر صاحب نے سب سن کر کہا۔
جی ہاں جی ہاں ضرور،لیکن آپ یہ درخواست فائل پر لکھ کر بھیجیں۔
.
میں نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ایک درخواست لکھی اس کو فائل میں لگایااور خاص طریقے سے ٹیگ میں پرویااور بڑے صاحب کے دفتر بھجوا دی۔جو رتبہ میں مجھ سے کہیں چھوٹے تھے۔ہفتہ گزر گیا ،کوئی جواب نہ آیا۔میں نے جا کر پوچھا تو کہنے لگے:
ہاں ہاں وہ فائل تو قلعہ کے انجینیئر کو بھیج دی تھی آپ کو سیڑھی نہیں ملی ابھی تک؟تعجب ہے میں نے اسی دن بھیج دی تھی۔
.
کئی دن میں انجینیئر جو تلاش کرتا رہا۔بالآخر وہ مجھے ایک دن مل ہی گئے ہفتہ اور گزر گیا۔میں نے دریافت کیا تو فرمانے لگے سیڑھیاں تو میرے پاس نہیں ہوتیں۔وہ تو ٹھیکیدار کا کام ہے۔میں نے فائل اپنے نائب کو بھیج دی ہے۔عکسی صاحب آپ پریشان نہ ہوں وہ آپ کو سیڑھی مہیا کر دیں گے۔
.
آٹھ دن اور بیت گئے۔سیڑھی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔اب تو یہ پتہ لگانا بھی محال تھا کہ وہ فائل ہے کہاں۔
.
ایک دن مغرب کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے دفعتا میں احاطے کے ایسے کونے میں داخل ہوا جہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔وہاں کئی قسم کی سیڑھیاں پڑی تھیں۔ چھوٹی،لمبی،بہت لمبی۔۔ میں نے اپنے انجینیئر یوسف ہارون کے ساتھ ایک سیڑھی اٹھائی اور مائی جنداں کی حویلی کی چھت پر پہنچ گیا۔
.
چھت پر دیسی انداز میں بڑی اینٹ کا چوکا لگایا گیا تھا۔جس جگہ سے پانی نیچے ٹپکتا تھا وہاں چوکوں کے درمیان درز خالی ہو چکی تھی۔ہم نے اسی وقت تھوڑے سے سیمنٹ میں پُڈلو پاؤڈر ملایا اور ان درزوں کو دس پندرہ منٹ میں بھر دیا نیچے اترے اور سیڑھی واپس وہیں رکھ دی جہاں سے لائی گئی تھی۔
.
دس دن اور گزر گئے ایک صبح مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو فائل میں نے بھیجی تھی وہ ضخیم فائل کی صورت میں مجھے واپس بھیج دی گئی ہے۔اس پر ڈائریکٹر نارتھ نے لکھ کر بھیجا تھا۔
" ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہمیں سیڑھی نہیں مل سکی براہ کرم بہتر ہو گا کہ آپ سیڑھی بازار سے کرائے پر حاصل کرلیں۔
.
اگلے ہی روز مجھے اسلام آباد سے خواجہ شاہد حسین کا پھر فون آیا۔
یار عکسی آپ کو مائی جنداں کی حویلی کے کام کا کہا تھا اس کا کیا بنا؟مجھے دیکھ کر بتاؤ یہ کام انتہائی اہم ہے۔
میں نے کہا سر اس کی مرمت تو ہو چکی۔ہم نے پوری تحقیق کر لی ہے اب چھت بالکل نہیں ٹپکتی۔
خواجہ شاہد نے حیرت سے پوچھا:
کیا کہا چھت کی مرمت ہو چکی ہے؟اب چھت نہیں ٹپکتی کب ہوئی کس نے کی؟
میں نے کہا میں نے خود کی یہ معمولی سا کام تھا۔
شاہد نے پوچھا کتنے پیسے خرچ ہوئے؟ میں نے بتایا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا۔
شاہد کہنے لگے:
حیرت ہے میرے سامنے چھت ٹپکنے کی فائل پڑی ہے۔محکمہ آثار قدیمہ نے اس کام کے لیئے 25 لاکھ روپے مانگے ہیں۔