یوسف-2
محفلین
کراچی کے مسئلے کی تشخیص وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بالکل درست کی ہے۔ اتفاق سے عدلیہ یہی تشخیص پہلے ہی کر چکی ہے اور عوام تو اس سے بھی پہلے علامتیں دیکھ کر مرض کو ٹھیک ٹھیک پہچان چکے تھے۔
چوہدری نثا ر نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کپتان بنیں ، رینجرز آپریشن کے لئے تیار ہے لیکن پھر یہ نہ کہا جائے کہ یہ میراہے، یہ تیرا ہے۔ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی اکثریت سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے، ضرورت صرف ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ اس تشخیص میں کوئی نئی بات نہیں۔ وزیر داخلہ کے پاس تو بہت معلومات ہیں لیکن بے شمار دوسرے لوگ بھی جو وزیر داخلہ نہیں ہیں، وہ سب جانتے ہیں جو وزیر داخلہ نے بتایا ہے اور عدالت بھی یہی کہتی رہی ہے اور رینجرز کے سربراہ کا بیان بھی یہی تھا کہ کراچی میں جتنے بھی ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور اور قبضہ گروپ ہیں، سب کے سب ’’سیاسی ‘‘ ہیں۔
یہ ٹارگٹ کلر بھتہ خور اور قبضہ گروپ عام دنوں میں دس پندرہ اور خاص دنوں میں بیس پچیس لاشیں روزانہ گراتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ سیاسی ہیں اس لئے پاکستان کی کوئی جماعت، کوئی حکمران، کوئی اخبار، کوئی ٹی وی انہیں دہشت گرد نہیں کہتا۔ یعنی دہشت گرد صرف وہی ہے جو غیر سیاسی ہو یاجس نے پگڑی پہن رکھی ہو۔ مسئلہ حل کرنا ہے تو مرض کو نام بھی دینا ہوگا ورنہ نسخہ کہیں نہ کہیں ضرور غلط ہو جائے گا اور اس مرض کا نام ہے دہشت گردی۔ جو بھی لوگوں کو مارے، چاہے بم سے ،چاہے گرنیڈسے ،چاہے بندوق سے، چاہے ٹارچر سیلوں میں لے جا کر وہ دہشت گرد ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی مجبوری ضرور ہے کہ کوئی بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں کہتا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے پیشہ ورانہ نام دیتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو کیپٹن بنانے کی تجویز بہت اچھی ہے اور وہ بن بھی جائیں گے کیونکہ بربنائے عہدہ آپریشن ٹیم کا کیپٹن بننا انہی کے حصے میں آتا ہے لیکن ان کی کپتانی ان کی اپنی پارٹی ناکام بنا دے گی۔ اس لئے کہ کراچی کے دہشت گردوں میں زیادہ نہیں تو20 فیصد کے لگ بھگ انہی کے پارٹی کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ دراصل پارٹی کا ذیلی گروپ ہیں اور انہیں ’’لیاری گینگز‘‘ کہا جاتا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے ذیلی گروپ کا نام ’’گینگز‘‘ ہو، ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔
20فیصد یہ ہے تو20فیصد پر اے این پی کا کنٹرول ہے۔ باقی60فیصد ’’بڑے بھائی ‘‘ کا حصہ ہے۔ کچھ ہی برس پہلے بڑے بھائی کا حصہ سو فیصد تھا۔ اور آج کل بڑے بھائی غصہ غصہ رہتے ہیں تو اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ ان کا حصہ سو فیصد سے کم ہو کر60فیصد کیوں رہ گیا، یہ ان کی حق تلفی ہے اور حق تلفی پر برہمی بھی تو حق پرستی ہے۔ یہ معمہ بہت سے لوگوں سے حل نہیں ہو رہا کہ60فیصد حصے والے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں خاص طور سے اگر پچھلے زمانے کو دیکھا جائے کہ یہ60فیصد والے ہی تھے جو کراچی میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف تھے۔ انہیں یہ ’’خوش امیدی‘‘ کیوں ہے کہ فوج صرف40فیصد والوں کی دھنائی کرے گی،60فیصد کو صاف چھوڑ دے گی؟ ظاہر ہے، معمے کا حل اتنا سادہ نہیں، آپریشن کے مطالبے کے پیچھے محض یہ خوش امیدی نہیں ہو سکتی۔ ماجرا کچھ وہی لگتا ہے کہ فوج کو وزیرستان اور بلوچستان کے بعد کراچی میں بھی پھنسا دو، پھر جنوبی پنجاب میں دہشت گردی بڑھا کر وہاں بھی الجھا دو تاکہ سرحدوں کی گلیاں موہن پیارے کے لئے سنجی ہو جائیں۔
ایک سوال اور بھی ہے۔ پہلے تو کسی قسم کے آپریشن کا فیصلہ ہونا ہی کافی مشکل لگتا ہے۔ ہوتے ہوتے دیر ہوجائے گی لیکن ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ کراچی میں ایک دو آپریشن پہلے بھی ہوئے، ان میں حصّہ لینے والے سارے اہلکار چن چن کر ہلاک کر دیئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے بے شمار کانوں میں سے کسی ایک پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اس بار جو آپریشن کرے، اس ٹیم کے تمام ارکان کا بعد میں کراچی سے تبادلہ کر دیا جائے۔
لیکن یہ تو سب شیخ چلّی کا خواب ہے۔ کراچی میں امن؟ توبہ توبہ۔ کراچی میں کیا ہونا ہے اور بلوچستان میں کیا نہیں ہونا ہے، ایسے سارے فیصلے پاکستان میں نہیں ہوتے، کسی اوراستھان میں ہوتے ہیں، نواز شریف نے کراچی کی صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے تویہ ان کی سادگی ہے اور سادگی بہت اچھی بات ہے چنانچہ نواز شریف بھی اچھے ہیں۔ بس اتنا کافی ہے،باقی کراچی کے پرنالے وہیں رہیں گے۔
تحریر:عبداللہ طارق سہیل، روزنامہ نئی بات 30 اگست 2013
چوہدری نثا ر نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کپتان بنیں ، رینجرز آپریشن کے لئے تیار ہے لیکن پھر یہ نہ کہا جائے کہ یہ میراہے، یہ تیرا ہے۔ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی اکثریت سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے، ضرورت صرف ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ اس تشخیص میں کوئی نئی بات نہیں۔ وزیر داخلہ کے پاس تو بہت معلومات ہیں لیکن بے شمار دوسرے لوگ بھی جو وزیر داخلہ نہیں ہیں، وہ سب جانتے ہیں جو وزیر داخلہ نے بتایا ہے اور عدالت بھی یہی کہتی رہی ہے اور رینجرز کے سربراہ کا بیان بھی یہی تھا کہ کراچی میں جتنے بھی ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور اور قبضہ گروپ ہیں، سب کے سب ’’سیاسی ‘‘ ہیں۔
یہ ٹارگٹ کلر بھتہ خور اور قبضہ گروپ عام دنوں میں دس پندرہ اور خاص دنوں میں بیس پچیس لاشیں روزانہ گراتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ سیاسی ہیں اس لئے پاکستان کی کوئی جماعت، کوئی حکمران، کوئی اخبار، کوئی ٹی وی انہیں دہشت گرد نہیں کہتا۔ یعنی دہشت گرد صرف وہی ہے جو غیر سیاسی ہو یاجس نے پگڑی پہن رکھی ہو۔ مسئلہ حل کرنا ہے تو مرض کو نام بھی دینا ہوگا ورنہ نسخہ کہیں نہ کہیں ضرور غلط ہو جائے گا اور اس مرض کا نام ہے دہشت گردی۔ جو بھی لوگوں کو مارے، چاہے بم سے ،چاہے گرنیڈسے ،چاہے بندوق سے، چاہے ٹارچر سیلوں میں لے جا کر وہ دہشت گرد ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی مجبوری ضرور ہے کہ کوئی بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں کہتا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے پیشہ ورانہ نام دیتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو کیپٹن بنانے کی تجویز بہت اچھی ہے اور وہ بن بھی جائیں گے کیونکہ بربنائے عہدہ آپریشن ٹیم کا کیپٹن بننا انہی کے حصے میں آتا ہے لیکن ان کی کپتانی ان کی اپنی پارٹی ناکام بنا دے گی۔ اس لئے کہ کراچی کے دہشت گردوں میں زیادہ نہیں تو20 فیصد کے لگ بھگ انہی کے پارٹی کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ دراصل پارٹی کا ذیلی گروپ ہیں اور انہیں ’’لیاری گینگز‘‘ کہا جاتا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے ذیلی گروپ کا نام ’’گینگز‘‘ ہو، ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔
20فیصد یہ ہے تو20فیصد پر اے این پی کا کنٹرول ہے۔ باقی60فیصد ’’بڑے بھائی ‘‘ کا حصہ ہے۔ کچھ ہی برس پہلے بڑے بھائی کا حصہ سو فیصد تھا۔ اور آج کل بڑے بھائی غصہ غصہ رہتے ہیں تو اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ ان کا حصہ سو فیصد سے کم ہو کر60فیصد کیوں رہ گیا، یہ ان کی حق تلفی ہے اور حق تلفی پر برہمی بھی تو حق پرستی ہے۔ یہ معمہ بہت سے لوگوں سے حل نہیں ہو رہا کہ60فیصد حصے والے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں خاص طور سے اگر پچھلے زمانے کو دیکھا جائے کہ یہ60فیصد والے ہی تھے جو کراچی میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف تھے۔ انہیں یہ ’’خوش امیدی‘‘ کیوں ہے کہ فوج صرف40فیصد والوں کی دھنائی کرے گی،60فیصد کو صاف چھوڑ دے گی؟ ظاہر ہے، معمے کا حل اتنا سادہ نہیں، آپریشن کے مطالبے کے پیچھے محض یہ خوش امیدی نہیں ہو سکتی۔ ماجرا کچھ وہی لگتا ہے کہ فوج کو وزیرستان اور بلوچستان کے بعد کراچی میں بھی پھنسا دو، پھر جنوبی پنجاب میں دہشت گردی بڑھا کر وہاں بھی الجھا دو تاکہ سرحدوں کی گلیاں موہن پیارے کے لئے سنجی ہو جائیں۔
ایک سوال اور بھی ہے۔ پہلے تو کسی قسم کے آپریشن کا فیصلہ ہونا ہی کافی مشکل لگتا ہے۔ ہوتے ہوتے دیر ہوجائے گی لیکن ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ کراچی میں ایک دو آپریشن پہلے بھی ہوئے، ان میں حصّہ لینے والے سارے اہلکار چن چن کر ہلاک کر دیئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے بے شمار کانوں میں سے کسی ایک پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اس بار جو آپریشن کرے، اس ٹیم کے تمام ارکان کا بعد میں کراچی سے تبادلہ کر دیا جائے۔
لیکن یہ تو سب شیخ چلّی کا خواب ہے۔ کراچی میں امن؟ توبہ توبہ۔ کراچی میں کیا ہونا ہے اور بلوچستان میں کیا نہیں ہونا ہے، ایسے سارے فیصلے پاکستان میں نہیں ہوتے، کسی اوراستھان میں ہوتے ہیں، نواز شریف نے کراچی کی صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے تویہ ان کی سادگی ہے اور سادگی بہت اچھی بات ہے چنانچہ نواز شریف بھی اچھے ہیں۔ بس اتنا کافی ہے،باقی کراچی کے پرنالے وہیں رہیں گے۔
تحریر:عبداللہ طارق سہیل، روزنامہ نئی بات 30 اگست 2013