جاسم محمد
محفلین
کراچی میں جیو، جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر حملہ
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 21 فروری 2021
---فوٹو: اسکرین شاٹ
---فوٹو: اسکرین شاٹ
کراچی میں نجی نیوز چینل جیو اور جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر حملہ ہوا ہے۔
نجی چینل کے مطابق مظاہرین نے واک تھرو گیٹ اور مرکزی دروازہ توڑ دیا اور عملے پر بھی تشدد کیا۔
علاوہ ازیں مظاہرین نے توڑ پھوڑ اور عملے پر تشدد کے بعد دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ پروگرام میں کی گئی متنازع بات کی وضاحت دی جائے۔
اس ضمن میں جیو نیوز چینل کے رپورٹر نے بتایا کہ پروگرام کے میزبان اپنا وضاحتی بیان جاری کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ اور تشدد کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین عملے کو دھکے دیتے ہوئے دفتر کے اندر داخل ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین نے کہا کہ جیو کے پروگرام میں استعمال ہونے والی زبان سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس پر جیو کی انتظامیہ کو معافی مانگنی چاہیے‘۔
جیو کے دفتر سے متصل موجود مظاہرین دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ پولیس کی نفری بھی پہنچ چکی ہے۔
اس حوالے سے جیونیوز کے بیورو چیف فہیم احمد صدیقی نے بتایا کہ مظاہرین استحقاق رائے کا حق رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر پروگرام سے متعلق ویڈیو کو ایڈٹ کرکے اپ لوڈ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جب بنیاد پر احتجاج کیا جارہا ہے درحقیقت پروگرام میں وہ بات اس طرح سے نہیں ہے جس طرح سوشل میڈیا پر ایڈٹ کی گئی ویڈیو میں پیش کی گئی۔
فہیم احمد نے بتایا کہ اس کے باوجود جیو نیوز کے اسی پروگرام میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا چاہیے کیونکہ مظاہرین نے دفتر پر حملے سے متعلق باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
جیو، جنگ کے دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، شبلی فراز
اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے جیو اور جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طنز و مزاح کا پروگرام تھا اور اگر کسی بات پر جذبات کو ٹھیس پہنچی تو اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کا مناسب طریقہ اپنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کراچی میں پیش آیا اس لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب ایسی صورتحال جنم لے رہی تھی پولیس نے ایکشن کیوں نہیں لیا۔
انہوں نے جیو اور جنگ دفتر کے مرکزی دفتر پر حملے کے بارے میں کہا کہ حملے کے محرکات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
علاوہ ازیں صدر پریس کلب فاضل جمیلی نے بھی حملے کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب بھرپور مذمت کرتا ہے اور حکومت سندھ معاملے کی شفاف تحقیقات کرائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پوری صورتحال میں پولیس کا کردار ایک سوالیہ نشان رہا۔
وزیر اطلاعات سندھ ناصر شاہ نے کہا کہ واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے ایس پی کا حوالہ دیے کر بتایا کہ مظاہرین نے پریس کلب سے شاہین کمپلیکس تک جانا تھا لیکن وہ آگے بڑھ گئے جو قطعی غیر مناسب تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وہ جیو کے دفتر جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی ہدایت کی ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
خیال رہے کہ جیو نیوز کے مزاحیہ پروگرام خبرناک کے میزبان اور تجریہ کار ارشاد بھٹی نے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ’سندھ کے عوام نے پروگرام کو بہت پسند کیا تو ساتھ ہی ایک دو جملوں پر اعتراض کیا، میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ طنز و مزاح کا پروگرام ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح مجھے خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پیارے ہیں اسی طرح سندھ اور سندھی میرے وجود کا حصہ ہیں‘۔
ارشاد بھٹی نے کہا تھا کہ سندھ اور سندھیوں کے لیے میری جان بھی حاضر ہے۔
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 21 فروری 2021
---فوٹو: اسکرین شاٹ
---فوٹو: اسکرین شاٹ
کراچی میں نجی نیوز چینل جیو اور جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر حملہ ہوا ہے۔
نجی چینل کے مطابق مظاہرین نے واک تھرو گیٹ اور مرکزی دروازہ توڑ دیا اور عملے پر بھی تشدد کیا۔
علاوہ ازیں مظاہرین نے توڑ پھوڑ اور عملے پر تشدد کے بعد دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ پروگرام میں کی گئی متنازع بات کی وضاحت دی جائے۔
اس ضمن میں جیو نیوز چینل کے رپورٹر نے بتایا کہ پروگرام کے میزبان اپنا وضاحتی بیان جاری کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ اور تشدد کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین عملے کو دھکے دیتے ہوئے دفتر کے اندر داخل ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین نے کہا کہ جیو کے پروگرام میں استعمال ہونے والی زبان سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس پر جیو کی انتظامیہ کو معافی مانگنی چاہیے‘۔
جیو کے دفتر سے متصل موجود مظاہرین دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ پولیس کی نفری بھی پہنچ چکی ہے۔
اس حوالے سے جیونیوز کے بیورو چیف فہیم احمد صدیقی نے بتایا کہ مظاہرین استحقاق رائے کا حق رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر پروگرام سے متعلق ویڈیو کو ایڈٹ کرکے اپ لوڈ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جب بنیاد پر احتجاج کیا جارہا ہے درحقیقت پروگرام میں وہ بات اس طرح سے نہیں ہے جس طرح سوشل میڈیا پر ایڈٹ کی گئی ویڈیو میں پیش کی گئی۔
فہیم احمد نے بتایا کہ اس کے باوجود جیو نیوز کے اسی پروگرام میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا چاہیے کیونکہ مظاہرین نے دفتر پر حملے سے متعلق باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
جیو، جنگ کے دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، شبلی فراز
اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے جیو اور جنگ گروپ کے مرکزی دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طنز و مزاح کا پروگرام تھا اور اگر کسی بات پر جذبات کو ٹھیس پہنچی تو اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کا مناسب طریقہ اپنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کراچی میں پیش آیا اس لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب ایسی صورتحال جنم لے رہی تھی پولیس نے ایکشن کیوں نہیں لیا۔
انہوں نے جیو اور جنگ دفتر کے مرکزی دفتر پر حملے کے بارے میں کہا کہ حملے کے محرکات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
علاوہ ازیں صدر پریس کلب فاضل جمیلی نے بھی حملے کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب بھرپور مذمت کرتا ہے اور حکومت سندھ معاملے کی شفاف تحقیقات کرائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پوری صورتحال میں پولیس کا کردار ایک سوالیہ نشان رہا۔
وزیر اطلاعات سندھ ناصر شاہ نے کہا کہ واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے ایس پی کا حوالہ دیے کر بتایا کہ مظاہرین نے پریس کلب سے شاہین کمپلیکس تک جانا تھا لیکن وہ آگے بڑھ گئے جو قطعی غیر مناسب تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وہ جیو کے دفتر جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی ہدایت کی ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
خیال رہے کہ جیو نیوز کے مزاحیہ پروگرام خبرناک کے میزبان اور تجریہ کار ارشاد بھٹی نے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ’سندھ کے عوام نے پروگرام کو بہت پسند کیا تو ساتھ ہی ایک دو جملوں پر اعتراض کیا، میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ طنز و مزاح کا پروگرام ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح مجھے خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پیارے ہیں اسی طرح سندھ اور سندھی میرے وجود کا حصہ ہیں‘۔
ارشاد بھٹی نے کہا تھا کہ سندھ اور سندھیوں کے لیے میری جان بھی حاضر ہے۔