کراچی میں زیرسمندرایشیا کے سب سے بڑے تیل گیس کے ذخائردریافت ہوگئے،وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
کراچی میں زیرسمندرایشیا کے سب سے بڑے تیل گیس کے ذخائردریافت ہوگئے،وزیراعظم

1605911-imrankhan-1553507891-824-640x480.jpg

افغان حکومت کے اعتراض پر طالبان سے ملاقات منسوخ کی، عمران خان فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں زیرسمندر ایشیا کے سب سے بڑے تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہوگئے۔

وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں زیر سمندر ایشیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوگئے، قوم دعا کرے کہ یہ دریافت قوم کی تقدیر بدل دے۔

بھارت الیکشن سے قبل دہشت گردی کرواسکتا ہے

بھارت سے حالیہ کشیدگی کے متعلق وزیراعظم نے خبردار کیا کہ بھارت انتخابات سے قبل پاکستان میں دہشت گردی کرواسکتا ہے، دہشت گردی سے بچنے کیلئے ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔

افغان طالبان سے ملاقات افغان حکومت کے اعتراض پر منسوخ کی

افغان طالبان سے مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے بتایا کہ افغان طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر ملاقات طے ہوگئی تھی، لیکن افغان حکومت کے اعتراض کے بعد طالبان سے ملاقات منسوخ کی، افغان حکومت چاہتی ہے کہ وہ خود طالبان سے مل کر حالات بہتر بنائے، امریکا بھی افغانستان میں امن کے لئے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے اور ہم نے اس کی حمایت کی ہے۔

اپوزیشن احتجاج کا شوق پورا کرے ڈی چوک پر کنٹینر ہم دیں گے

اپوزیشن کے احتجاج سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سابق حکومت سے بے شمار مسائل ورثے میں ملے، اپوزیشن حکومت کو پارلیمنٹ میں بات کرنے کا بھی موقع نہیں دیتی جبکہ حکومت مکمل تعاون کرتی ہے، شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی بنایا، سعد رفیق کو پروڈکشن آرڈر جاری کئے۔

عمران خان نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باوجود اپوزیشن کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، کیا اپوزیشن اپنی چوری بچانے کیلئے تحریک چلائے گی لیکن مجھے اپوزیشن کے احتجاج سے کوئی خوف نہیں جب کہ لوگ بھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں، اپوزیشن احتجاج کا شوق پورا کرے، ڈی چوک پر ہم کنٹینر فراہم کرینگے۔

نواز شریف

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب کوئی بلیک میلنگ نہیں چلے گی اور نہ ہی کوئی این آر او ملے گا، نوازشریف نے ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنالیں لیکن 30 سال حکومت کرنے کے باوجود ایک ایسا اسپتال نہ بناسکے جہاں ان کا علاج ہو ، نوازشریف کو کس قانون کے تحت باہر علاج کے لیے بھجوائیں، ایسا کوئی قانون نہیں، انہیں علاج سے متعلق حکومت مکمل سہولیات دے رہی ہے، وہ ملک کے اندر جہاں چاہے علاج کراسکتے ہیں۔

نیب چھوٹے لوگوں کی بجائے بڑے چوروں پر ہاتھ ڈالے

قومی احتساب بیورو کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ نیب حکومت کے زیراثر نہیں ہے، گذشتہ ادوار میں نیب کی وجہ سے کرپشن بڑھی، سرکاری افسران کے خدشات نیب تک پہنچا دیئے ہیں، اسے اپنی استعداد بڑھانے کی ضرورت،جبکہ نیب کو پیغام دیا ہے کہ چھوٹے چوروں کو تنگ کرنے کی بجائے بڑے چوروں پر ہاتھ ڈالے۔

توانائی بحران

ملک میں بجلی کے بحران کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ توانائی بحران کی وجہ ٹرانسمیشن لائن کی خرابی ہے، پچھلے ادوار میں ترسیلی لائنز پر کوئی کام نہیں ہوا، ہم 14 سو مکعب فٹ گیس خریدتے ہیں اور 650 روپے میں بیچتے ہیں، گیس کی مہنگائی اس کے شارٹ فال اور ایل این جی کی وجہ سے ہے۔

بلاول اور ایان علی کے ٹکٹس ایک ہی اکاؤنٹس سے بنے

عمران خان نے کہا کہ بلاول بھٹو نیب سے خوفزدہ ہے اس لیے رو رہے ہیں، ایان علی اور بلاول بھٹو کے ایئر ٹکٹس ایک ہی جعلی اکاونٹس سے بنائے گئے تھے، پیپلزپارٹی نے ماضی میں جعلی اکاونٹس کے ذریعے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔

ٹرمپ سے ملاقات

امریکی صدر سے ملاقات کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پیغام ملا ہے مگر ابھی کوئی ملاقات یا بات چیت طے نہیں، امریکا پاکستان کوپیسے دیتا تھا کہ ہماری جنگ لڑیں، اب پالیسی میں تبدیلی آئی ہے امریکہ ہماری تعریف کررہا ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ کرکٹ بورڈ کے نظام میں بھی تبدیلی لارہے ہیں، علاقائی کرکٹ کو فروغ دیں گے، اسپورٹس بورڈ ماضی میں بھرتی سینٹر بنا ہوا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
تیل، گیس، سمندر، ڈرلنگ اور حقیقت
سالار سلیمان بدھ 17 اپريل 2019
1632466-oilandgas-1555399927-128-640x480.jpg

ایک عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)


کہتے تو بہت کچھ ہیں، اب کیا بتائیں اور کیا کیا لکھیں۔ لیکن یہ بات اصولی ہے کہ بڑے جو بھی کہتے ہیں وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ٹھیک کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بڑی بڑی نہیں ہانکنی چاہیے، یا پہلے تولو پھر بولو، یا بولنے سے پہلے سوچ لو وغیرہ۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ایسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید یہی حال وزیراعظم پاکستان کا ہے۔ ایک معروف صحافی اپنے انٹرویو میں حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ کام چاہے جیسے بھی کرے لیکن بولے کم۔ کیا اس مشورے پر عمل ہوا؟ نہیں۔ اس کی حالیہ مثال لیجیے۔ وزیراعظم پاکستان نے تیل اور گیس کے حوالے سے فرما دیا کہ ہم ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر دریافت کرنے والے ہیں۔ کیا ایسا ہے؟ تکنیکی طور پر کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو آپ سعودی عرب سے بھی اوپر آجائیں گے؟ ایران کو کراس مار دیں گے؟ ایسا بظاہر ناممکن ہے۔

حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال یا ایک دہائی سے زائد عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ اس سارے عمل میں بین الاقوامی معیار کا سامان بھی استعمال ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خرچہ ڈالروں میں آتا ہے۔ اس ضمن میں معروف ماہرِ ارضیات مسعود ابدالی صاحب سے معاونت لی گئی جو غالباً امریکا میں مقیم ہیں۔ آپ کا اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔

کہتے ہیں کہ اب جس جگہ پر یہ کھدائیاں جاری ہیں (اسے کیکڑا 1 کہہ لیجیے)، تکنیکی طور پر اس جگہ چونے کا پتھر یعنی ’’لائم اسٹون‘‘ (Limestone) اور ریت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان دونوں کی موجودگی میں تیل اور گیس یہاں پر جمع رہیں گے۔ تیل، گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے اندر کچھ ایسے جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج یا فوم میں پانی ہوتا ہے۔ اس جگہ پر کھدائی جاری ہے۔ مسام دار چٹانوں سے اوپر بھی ایک پرت (layer) کا ہونا ضروری ہے جو اس جگہ پر کسی ڈھکنے کا کام کرے، اسے ’’کیپ راک‘‘ (cap rock) کہتے ہیں۔ یہ ایک غیر مسام دار چٹان ہوتی ہے۔ اس چٹان سے تیل یا گیس اندر موجود رہتے ہیں؛ اور اگر یہ نہ ہوتو رساؤ (لیکیج) کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ تیسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس جگہ کی بناوٹ (ساخت) ایسی ہو کہ ہر جگہ سے تیل اور گیس اُس مقام پر اکٹھے ہوتے ہوں۔ یعنی یہ اُس جگہ پر، جہاں پر کھدائی کی جارہی ہے، وہاں پر تیل و گیس سمٹ کر اکھٹے ہونے چاہئیں۔

اب ان تینوں نکات کا کیسے علم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا ہے؟ اس کا علم کھدائی کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم کھدائی بھی یوں ہی منہ اُٹھا کر نہیں شروع کی جاتی ہے بلکہ سب سے پہلے اُس جگہ کا ارضیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ انتہائی اعلیٰ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ سمندر کے پانی، اُس جگہ کی ریت، پھر غالباً سو فٹ کی کھدائی اور اُس کی ریت، پھر کھدائی کی مٹی اور نہ جانے کیا کچھ کے مکمل تجزیے ہوتے ہیں۔ اِن کی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد بڑی مشینری کی تنصیب اور باضابطہ کھدائی شروع ہوتی ہے۔ تاہم، کوئی بھی چیز یقینی اور حتمی نہیں ہوتی۔

تفصیلی پیمائش و آزمائش (logging and testing) کے بعد امید کا قائم ہونا ایک الگ بات ہے تاہم مکرر عرض ہے کہ امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔

اس کے بعد ’’پریشر ککس‘‘ (pressure kicks) کی آوازیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ یہ کیا ہوتی ہیں؟ درحقیقت جب زیر زمین تیل و گیس کا غیر معمولی دباؤ سامنے آتا ہے تو ایک عمل ہوتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں چار پانچ ہزار میٹر یعنی تیرہ سے سولہ ہزار فٹ کی گہرائی میں یہ مائعات اور گیسیں گویا پھنسے ہوتے ہیں۔ کھدائی کے دوران جیسے جیسے ڈرلنگ گہری ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے زمین کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ زمین کی اوپری پرتوں کا اپنا دباؤ ہوتا ہے جو بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ اس دباؤ کو مناسب رکھنے کےلیے پانی میں مختلف کیمیکلز ملا کر اُسے نیچے کی طرف پمپ کیا جاتا ہے جسے ’’گاد‘‘ کہتے ہیں۔ اس گاد کو بھاری کرنے کےلیے اِس میں ایک اور کیمیکل ملایا جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو ’’آب ساکن دباؤ‘‘ (hydrostatic pressure) کہا جاتا ہے جبکہ زیر زمین سے اوپر کی جانب پڑنے والا دباؤ ’’پرت کا دباؤ‘‘ (formation pressure) کہلاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر اتنا زیادہ نہ ہو کہ چٹانوں میں جو مائع ہے، وہ اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے۔ اسی طرح سے یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ دباؤ (ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر) اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ نیچے موجود چٹانیں ٹوٹ جائیں یا بکھر جائیں۔

زیر زمین موجود تخمینے میں بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی ہے، اس کے بعد پریشر ککس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیکڑا1 میں جن ککس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ پانی کی ککس ہو۔

یہ سب کچھ کہنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمیں کس حد تک کام کرنا ہے اور اِس کے بعد ہی کوئی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کو ایسے ذخائر ملیں، اللہ کرے کہ ہم اُن سے فائدہ لے سکیں۔ اللہ کرے کہ اِن کا حال ریکوڈک، ساہیوال، چنیوٹ اور تھر کے ذخائر جیسا نہ ہو۔

مجھے معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو بریفنگ کون دے رہا ہے، لیکن جو بھی بریفنگ دے رہا ہے وہ غلط دے رہا ہے۔ وزیراعظم پہلے بھی ایک تقریر میں یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم گہرے سمندر میں ڈرلنگ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ کہیں گیس لیک نہ ہوجائے۔ گہرائی میں دیکھیں تو وزیراعظم کی بات درست ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اس بیان کا ٹھیک ٹھاک تمسخر اڑایا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ باتیں عام لوگوں کے سامنے کرنے کی ہیں ہی نہیں۔ یہ گہری باتیں ہیں جو وقت آنے پر الفاظ تبدیل کرکے کی جاتی ہیں۔ ایسے تو پھر مذاق ہی بنے گا۔ اس بارے میں بھی سوچ لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top