کراچی میں عید پر خریداری کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، 70 ارب روپے کا بزنس

کراچی میں عید پر خریداری کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، 70 ارب روپے کا بزنس
289755_45396015.jpg

کراچی میں بھتہ خوری میں نمایاں کمی اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے باعث عید پر خریداری کا 10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ 70 ارب روپے مالیت کی منصوعات کی فروخت سے تاجروں کے وارے نیارے ہو گئے۔
کراچی: (دنیا نیوز) شہر قائد کی رونقیں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے ساتھ بحال ہوتی جا رہی ہیں۔ خوف کے بادل چھٹنے سے ملک کے معاشی حب میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ شہر میں بھتہ خوری میں 95 فیصد تک کمی آنے سے سرمایہ کاری کو جہاں فروغ ملا ہے، وہیں شہریوں کی جانب سے 70 ارب روپے مالیت کی عید خریداری سے منصوعات کی فروخت کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جس سے تاجروں کی عید کی خوشیاں دوبالا ہو گئی ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ عید کے موقع کیلئے مجموعی طور پر 90 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ مصنوعات کی فروخت توقعات سے بھی بہت زیادہ رہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے حالات میں بہتری آ رہی ہے۔ مستقبل میں کاروباری سرگرمیوں کو مزید فروغ ملنے کی امید ہے۔
 

x boy

محفلین
الحمدللہ ،،، ہماری فارمیسی کی دکان زبردست چلتی ہے صرف 4 گھنٹے کا وقفہ یعنی بیس گھنٹے لگاتار بزنس۔ تقریبا دس ورکر کام کرتے ہیں۔۔
 
لئیق احمد بھائی، اس میں وہ پنکھے ، اے سی ، سپلیٹ ، روم کولر اور دیگر نوعیت کے پنکھے اور گرمی سے بچنے کے الات شامل ہیں جو اوائلِ رمضان میں گرمی کی شدت کی وجہ سے فروخت ہوئے تھے اور جس کے بارے میں یہ سننے میں آیا تھا کہ یہ بھی گویا ایک قسم کی خریداری کی حد تھی جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ؟
 
لئیق احمد بھائی، اس میں وہ پنکھے ، اے سی ، سپلیٹ ، روم کولر اور دیگر نوعیت کے پنکھے اور گرمی سے بچنے کے الات شامل ہیں جو اوائلِ رمضان میں گرمی کی شدت کی وجہ سے فروخت ہوئے تھے اور جس کے بارے میں یہ سننے میں آیا تھا کہ یہ بھی گویا ایک قسم کی خریداری کی حد تھی جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ؟
یہ تفصیل تو میرے علم میں نہیں ہے۔ کیا آپ کچھ جانتے ہیں ؟
 
یہ تفصیل تو میرے علم میں نہیں ہے۔ کیا آپ کچھ جانتے ہیں ؟
جی !
یہاں پر الکٹرانک کی دکانوں پر ابتدائے رمضان میں گمسان کا رن تھا ۔ (یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں سورج کرنوں کے نیزے ہاتھ میں لیے کلیجے تاک رہا تھا ) وہ اسپلیٹ جو عام حالات میں 35 سے 37 ہزار روپے میں فروخت ہوتا تھا ، بعض دکانداروں نے اسکے 50 سے 55 ہزار روپے تک وصول کیے۔ اور اس کے با وجود شہر میں اے سی ، اسپلیٹ اور روم کولر کا کال پڑ گیا تھا ۔ یادش بخیر، چوتھے روزے کومختلف ٹی وی چینلز نے رپورٹ چلائی کہ الیکڑانکس مارکیٹ ریگل ( یہ شہر کی سب سے بڑی الکڑانکس مارکیٹ ہے جہاں تھوک کا سودا ہوتا ہے اور ریٹیل بھی ہوتی ہے ۔ شہر بھر کی اکثر چھوٹی مارکیٹس میں یہیں سے مال پہنچتا ہے ) میں دکانداروں نے دکانیں بند کردی ہیں اور وجہ اس کی یہ بتائی کہ تمام الکٹرانکس گڈز فروخت ہو چکی ہیں اور دوکانداروں کے گودام تک خالی ہو چکے ہیں اور آئندہ آنے والے مال بردار جہاز تک پہلے سے بک ہو چکے ہیں لہذا دکان کھولنے کی اب کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق الکٹرانکس کی دکانوں پر قطاریں لگی ہوئی ہیں ( یہ محاورہ نہیں حقیقتاََ ایسا ہی تھا) جن کی پیمائش ، امریکہ کے ویزے کی درخواست دینے والوں سے زیادہ ہے، یا یوں سمجھ لیں "تھر" میں امدادی سامان کی تقسم کے وقت جو منظر ہوتا ہے من و عن وہی منظر کراچی میں الکڑانکس کی دکانوں کا تھا ۔ آخر آخر تو حالت یہ تھی کہ لوگ نے باقاعدہ اپنے اعلیٰ اثر و رسوخ کا استعمال کرنا شروع کردیا تھا ۔ کچھ دکانداروں کے مطابق انہیں کچھ اعلیٰ شخصیتوں کے فون موصول ہوئے کہ ان کا غیر اعلانیہ کوٹہ محفوظ رکھا جائے ۔
 
Top