فرحان دانش
محفلین
ماخذ: جنگ کراچی
محترم! ایک وضاحت کر دوں۔ کراچی میں سی این جی بسیں پہلی بار نہیں چلی ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ شہری حکومت نے سویڈن سے منگوائی گئی شاندار سی این جی بسیں چلائی تھیں جو موجودہ شہری حکومت نے آتے ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند کر دی تھیں۔ اب جو بسیں چلائی گئی ہیں وہ مقامی طور پر تیار کردہ ہیں اور کسی طور ان کا مقابلہ گزشتہ دور حکومت کی سی این جی بسوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال اچھے اقدام کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ہماری دعا ہے کہ ہر روٹ پر اس طرح کی بسیں جلد از جلد چلائی جائیں تاکہ کراچی ٹرانسپورٹ پر قابض مافیا کے قبضے سے نکل سکے۔
محترم! ایک وضاحت میں بھی کر دوں کہ سی این جی بسیں پہلے بھی آئی تھی لیکن وہ ڈیزل بسیں تھیں ان کے اسپئر پارٹس بھی مارکیٹ میں دستیاب نہ تھے جس کی وجہ سے وہ چل نہ سکیں موجوہ بسیں مکمل سی این جی بسیں ہیں۔اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کراچی میں پہلی بارسی این جی بسوںکا آغاز ہوگیا ہے۔
امید ہے اس جواب سے آپ کی تسلی وتشفی ہو گئی ہوگی۔
محترم! ایک وضاحت میں بھی کر دوں کہ سی این جی بسیں پہلے بھی آئی تھی لیکن وہ ڈیزل بسیں تھیں ان کے اسپئر پارٹس بھی مارکیٹ میں دستیاب نہ تھے جس کی وجہ سے وہ چل نہ سکیں موجوہ بسیں مکمل سی این جی بسیں ہیں۔اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کراچی میں پہلی بارسی این جی بسوںکا آغاز ہوگیا ہے۔
امید ہے اس جواب سے آپ کی تسلی وتشفی ہو گئی ہوگی۔
کمال ہے ۔یہ بات پہلی بار آپ سے سنی ہے۔ خیر لیکن برادر آپ خود بتائیے کہ سویڈن کی ان بسوں اور ہینو کی موجودہ بسوں کا کوئی مقابلہ ہے؟؟؟محترم! ایک وضاحت میں بھی کر دوں کہ سی این جی بسیں پہلے بھی آئی تھی لیکن وہ ڈیزل بسیں تھیں ان کے اسپئر پارٹس بھی مارکیٹ میں دستیاب نہ تھے جس کی وجہ سے وہ چل نہ سکیں موجوہ بسیں مکمل سی این جی بسیں ہیں۔اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کراچی میں پہلی بارسی این جی بسوںکا آغاز ہوگیا ہے۔
امید ہے اس جواب سے آپ کی تسلی وتشفی ہو گئی ہوگی۔
جہاں تک مجھے علم ہے ڈیزل اور سی این جی انجن ایک نہیں ہوتے۔ ہاں پیٹرول اور سی این جی ایک ہی انجن ہوتا ہے۔
یہ حرکتیں پہلی مرتبہ میٹرو اور بعد ازاں سی این جی بسوں کے چلنے کے بعد بھی کی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح سگنل پر گاڑیاں کھڑی ہونے کے دوران منی بسوں کے کنڈیکٹر میٹرو کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو گالیاں دے کر چھیڑتے تھے۔ بلکہ ٹرانسپورٹر مافیا کی جانب سے ان حرکتوں کے علاوہ وہ ٹریفک پولیس اہلکار جن کی بسیں روٹ پر چلتی ہیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹریفک پولیس کے کئی اہلکاروں کی گاڑیاں مختلف روٹس پر چلتی ہیں، وہ نئی گاڑیوں کو بلا وجہ روکتے ہیں، ان کے چالان کاٹتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ عام لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں جنہیں بلا وجہ کی تکلیف ہوتی رہتی ہے۔ جب یو ٹی ایس بسوں کا آغاز ہوا تھا تو میں نے خود دیکھا تھا کہ لوگ کرسیوں کو لات مار کے اتر جایا کرتے تھے، یا پھر کھڑکی کی شیشوں کے گزر گاہ میں کاغذ گھسا دیا کرتے۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں یو ٹی ایس بسوں کا کباڑا نکل گیا۔
جملہ انتہائی سخت ہےاور اکثریت ان جیسوں کی نہیں ۔ اکثریت کا مسئلہ تماش بینی ہے کہ نہ ہم کسی کو ہاتھ سے رروکنے کی جرات رکھےتے ہیں زبان میں قوت رکھتے ہیں ۔ اور ایمان کے آخری درجے والے کام ہی ہمارے من پسند ہیں ۔ ۔ ۔ ایہ حرکتیں پہلی مرتبہ میٹرو اور بعد ازاں سی این جی بسوں کے چلنے کے بعد بھی کی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح سگنل پر گاڑیاں کھڑی ہونے کے دوران منی بسوں کے کنڈیکٹر میٹرو کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو گالیاں دے کر چھیڑتے تھے۔ بلکہ ٹرانسپورٹر مافیا کی جانب سے ان حرکتوں کے علاوہ وہ ٹریفک پولیس اہلکار جن کی بسیں روٹ پر چلتی ہیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹریفک پولیس کے کئی اہلکاروں کی گاڑیاں مختلف روٹس پر چلتی ہیں، وہ نئی گاڑیوں کو بلا وجہ روکتے ہیں، ان کے چالان کاٹتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ عام لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں جنہیں بلا وجہ کی تکلیف ہوتی رہتی ہے۔ جب یو ٹی ایس بسوں کا آغاز ہوا تھا تو میں نے خود دیکھا تھا کہ لوگ کرسیوں کو لات مار کے اتر جایا کرتے تھے، یا پھر کھڑکی کی شیشوں کے گزر گاہ میں کاغذ گھسا دیا کرتے۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں یو ٹی ایس بسوں کا کباڑا نکل گیا۔
اس قوم کو میں کیا کہوں۔۔۔۔۔ جاہلوں کا ریوڑ ہے ریوڑ۔ چند ہی انسانوں کے بچے ملیں گے آپ کو یہاں ورنہ اوپر سے لے کر نیچے تک سب جہالتوں کے ٹوکرے سروں پر لیے دندناتے پھرتے ہیں۔
جی مجھے بالکل پتہ ہے کہ یہ جملہ بہت سخت ہے۔ اس سے آپ میری کوفت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بات صرف پبلک ٹرانسپورٹ تک ہی محدود نہیں۔ آپ نکلیے باہر، دیکھیے کہ یہ قوم کیا کرتوت کر رہی ہے؟ میں خود کئی مرتبہ wrong side سے پوری رفتار سے آنے والی موٹر سائیکل یا گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ہوں۔ اور حیرت ناک بات یہ کہ الٹا موصوف مجھے جھاڑنے لگے۔ یہ وہ چھوٹی سی باتیں ہیں جو کسی بھی قوم کے مجموعی مزاج کو ظاہر کرتی ہیں۔جملہ انتہائی سخت ہےاور اکثریت ان جیسوں کی نہیں ۔ اکثریت کا مسئلہ تماش بینی ہے کہ نہ ہم کسی کو ہاتھ سے رروکنے کی جرات رکھےتے ہیں زبان میں قوت رکھتے ہیں ۔ اور ایمان کے آخری درجے والے کام ہی ہمارے من پسند ہیں ۔ ۔ ۔ ا
وسلام