کراچی پھر بھی کراچی ہے - نجم شاہ

پاکستان کا ساحلی شہر کراچی دو کروڑ سے زائد آبادی کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے اور اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی جو کہ ملکی معیشت کی شہ رگ کہلاتا ہے اس وجہ سے یہاں آبادی کا دباﺅ بھی دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس شہر میں لوگوں کیلئے روزگار کے کثیر مواقع موجود ہیں۔ دو صدی قبل بحیرہ عرب کے اس کنارے پر رہنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور مچھیروں کی اس بستی کو یہاں کے لوگ ”کلاچی جوگوٹھ“ کہتے تھے۔ مائی کلاچی یہاں کی ایک بہادر خاتون تھی جب اُسے پتہ چلا کہ اُس کا شوہر جو مچھلیوں کے شکار کیلئے گیا تھا وہ کشتی کے ڈوب جانے سے سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو چکا ہے تو وہ اُسے بچانے کیلئے سمندر میں کود گئی اور ایک جزیرے میں پھنسے اپنے شوہر اور اسکے ساتھیوں کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی۔ مائی کلاچی نے بہادری کی ایسی تاریخ رقم کی کہ لوگ اس بستی کو کلاچی جوگوٹھ کے نام سے پکارنے لگے جو بعد میں ”کلاچی “کہلانے لگا۔ بحیرہ عرب کے کنارے ہونے کی وجہ سے تجارت کی غرض سے آنیوالے عرب تاجر اس جگہ کو اپنے مخصوص لب ولہجے کی وجہ سے ”کراشی“ کہا کرتے تھے جوبعد میں ”کراچی “بن گیا۔
وقت کی رفتار کے ساتھ اس شہر نے بھی خوب ترقی کی اور جلد ہی روشنیوں کا شہر کہلانے لگا۔ کراچی میں جہاں وقتاً فوقتاً کئی صنعتیں قائم ہوئیں وہاں ایکسپریس ویز، اوورہیڈ برجز، انڈر پاسز اور طویل سڑکوں کا جال بھی بچھایا گیا۔ اس کے علاوہ اس ترقی کے ساتھ ساتھ یہاں کئی نئے نام بھی متعارف ہوتے رہے لیکن کراچی کی اصل پہچان جو اسے دیگر شہروں سے منفرد بناتی ہے وہ پرانے نام ہیں جو بہت ہی انوکھے ، دلکش اور عجیب و غریب ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شہر میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں، حشرات الارض، پرندوں اورکیڑے مکوڑوں کے ناموں پر کئی علاقے آباد ہیں۔ یہاں کئی قصبے، دیہات، ٹاﺅن، گلیاں، موڑ، بس اسٹاپس ایسے ہیں جو عجیب و غریب ناموں سے پکارے جاتے ہیں جبکہ بعض نام عجیب نہیں بلکہ صحیح تلفظ نہ ہونے کی وجہ سے عجیب لگتے ہیں۔ خود مائی کلاچی کا شہر تو کراچی بن گیا لیکن اس شہر میں بہت سی جگہوں کے نام آج بھی کراچی کی پرانی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یہی نام اس شہر کی منفرد وجہ شہرت بھی بنے ہوئے ہیں۔
کراچی میں ٹیکنالوجی اور جہالوجی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ جہاں قصبوں، دیہات، ٹاﺅن، گلیوں ، چوراہوں، ہوٹلوںاور سٹاپس کے نئے نام متعارف ہو رہے ہیں وہاں بھینس کالونی، مچھر کالونی، گیدڑ کالونی، خاموش کالونی،عامل کالونی، لالو کھیت، رنچھوڑ، بوتل گلی، موچی گلی، غیبت گلی، بیگم گلی، دوپٹہ گلی، ناگن چورنگی، دو منٹ چورنگی، کالی مارکیٹ، لال مارکیٹ، گجر نالہ، انڈہ موڑ، کریلہ موڑ،پرفیوم چوک، لال اسکول، پیلا اسکول، سفید اسکول، بے رنگ اسکول، کھڈا اسکول، اپنا ہوٹل، اچانک ہوٹل، دھماکہ ہوٹل، بندر روڈ اور گولی مار جیسے نام بھی کراچی کا حصہ ہیں۔ بہت سی جگہوں کے نام وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہوئے لیکن پرانے نام ہی ابھی تک اصل وجہ شہرت بنے ہوئے ہیں۔ جہاں ان ناموں کی وجہ سے کراچی کی شہرت عام ہے وہاں تلاش کرنے پر اس شہر کی دو کروڑ آبادی میں کئی انسانی نام بھی منفرد اور عجیب و غریب ملیں گے جیسے بابا لیٹرین، چاچا ترپال پاڑو، راجو راکٹ، ڈیزل بٹ، گنجا پٹھان، لنگڑا حاجی، دھوتی ناتھ، اچھو چوپڑا، ٹوٹی پہلوان، کرتار ویلیم سنگھ، شیدا کن ٹٹا، منو قصائی، سائیں کوڑے لال، سائیں پنگوڑے لال، سائیں چوڑے لال، سائیں جھولے لال، چوہدری کمی کمین، زکوٹا ککڑی فروش، کچرا سیٹھ، بم پہلوان، مودا ڈینجر، فارغ شاہ وغیرہ۔
چوپایوں میں بھینس وہ خوش قسمت جانور ہے جوبھینس کالونی کے نام سے کراچی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی جبکہ گدھا، بیل، گائے بکری وغیرہ بدنصیب قرار پائے حالانکہ گدھا ایک کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے۔ اس کے نام سے لے کر اس کی ذات تک ہر چیز قابل استعمال ہے ۔ لانڈھی کی بھینس کالونی میں جائیں تو ہر طرف باڑے اور گوالے نظر آئیں گے جبکہ گوبر کی بو سونگھنے کے بعد کوئی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس جگہ کا نام تبدیل ہو۔ جنگلی جانوروں میں گیدڑ اور بندر خوش قسمت ہیں کہ ایک ”گیدڑ کالونی “اور دوسرا ”بندر روڈ “کا حقدار ٹھہرا جبکہ دیگر جنگلی جانور وں نے اپنے نام کی لاٹری نہ نکلنے پر یقینا احتجاج بھی کیا ہوگا۔ کہتے ہیں گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے ہو سکتا ہے کوئی گیدڑ جنگل سے نکل کر یہاں آ گیا ہو اور جہاں اُس کی موت آئی ہو اُس جگہ کو گیدڑ کالونی کا نام دے دیا گیا ہو۔ یہ جو بندر روڈ ہے یہاں ہر طرف بندر ہی بندر ہوتے ہوں گے ہے ناں؟ پھر لوگوں نے اِن کو مار مار کر ایک جگہ کر دیا اور وہ بندرگاہ ہو گئی۔ انگریز اِن بندروں کو بحری جہاز میں بھر بھر کر افریقہ لے جاتے تھے وہاں آدم خور قبیلے بندر بھی کھا لیتے ہیں جس طرح چین کے لوگ کتے کھاتے ہیں۔ اگر میری بات میں دَم نہیں تو پھر اس کا نام بندر روڈ اس وجہ سے پڑا ہوگا کیونکہ یہ کراچی کی بندرگاہ کی طرف جاتی ہے۔ اس شہر میں جو جانور وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں اُن میں کتوں کو برتری حاصل ہے جبکہ بلیاں اور چوہے کراچی والوں کے درمیان رہنے میں کافی ماہر ہیں۔ اس کے باوجود یہ تینوں کوئی جگہ اپنے نام سے منسوب کرنے میں فی الحال ناکام ہیں۔ کراچی کے لوگوں نے مکھی کالونی کی بجائے مچھر کالونی بنا کر اس حقیر چیز کو عزت تو بخش دی لیکن وہ خود ان مچھروں سے محفوظ نہیں ہیں۔ جو لوگ مچھر کے کاٹے سے پریشان ہیں اُن کے دل میں ضرور خیال آتا ہوگا کہ بہتر تھا مچھر کی بجائے مکھی کالونی بنالی ہوتی کیونکہ اس جگہ مچھروں کے ساتھ ساتھ مکھیوں کی بھی بہتات ہے اور وہ مچھروں کی طرح ڈستی بھی نہیں ہیں۔ اس مچھر کالونی میں جائیں تو جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا نظر آئیگا جو اس علاقے میں گندگی اور بدبو کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اس جگہ کا نام مچھر کالونی سے تبدیل ہو کر صرف مکھی کالونی ہی بن سکتا ہے ۔
لالوکھیت کا نام سنتے ہی دل میں گمان گزرتا ہے کہ اس جگہ لالو نامی ایک ایسا کسان رہتا ہوگا جس کی وسیع زمین ہوگی حالانکہ یہاں نہ لالو رہتا ہے نہ کھیت ہیں پھر بھی” لالوکھیت “موجود ہے۔ ”گولی مار“ کا علاقہ بھی اپنے نام کے حوالے سے کچھ کم حیرت انگیز نہیں۔ پرانا گولیمار شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں شمار ہوتا ہے۔ انگریز راج میں اس جگہ فوجی نشانہ بازی کرتے تھے اور ہر طرف گولیوں کی تڑتڑاہٹ رہتی تھی۔اسی وجہ سے اس علاقہ کا نام گولیمار پڑ گیا۔ بعد ازاں یہاں کے مکینوں نے یہ نام تبدیل کرکے گلبہار رکھ دیا مگر اب بھی لوگ اسے گولیمار کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ ”رنچھوڑ“ ہندوانہ طرز کے ناموں سے ہجرت کرکے آیا۔ بیویوں کے اشاروں پر چلنے والے شوہر ”رن مرید“ کہلاتے ہیں جبکہ میرے خیال میں ”رن چھوڑ “اس کے اُلٹ ہو سکتا ہے۔ مثلاً جو لوگ اپنی بیویوں کی روز روز کی فرمائشوں سے تنگ آ چکے ہوں اور اُن سے جان چھڑانا چاہتے ہوں وہ اس علاقے کا رُخ کرتے ہوں گے کیونکہ ایسے ناموں کے پیچھے کوئی نہ کوئی تاریخی منطق ضرور ہوتی ہے اور رنچھوڑ بھی یہاں کے قدیم ترین ناموں میں سے ایک ہے۔ جو شوہر اپنی بیویوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے عادی ہو چکے ہیں اور رنچھوڑ جانے سے کتراتے ہیں وہ اپنے علاقے کو ”مظلوم کالونی“ میں بدل سکتے ہیں۔
یہ گلیاں یہ چوبارہ یہاں آنا تم دوبارہ کیونکہ ہمیں آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے۔ اب کراچی کی گلیوں ، محلوں اور چورنگیوں کی سیر کرتے ہیں۔شہر قائد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کے محلے اور گلیاں بھی منفرد ناموں کی حامل ہیں، مثلاً بوتل گلی، موچی گلی، غیبت گلی، بیگم گلی، فنکار گلی، دوپٹہ گلی ، کھدڑا گلی وغیرہ ۔ فنکارگلی اور موچی گلی کی تو سمجھ آتی ہے کہ یہ گلیاں فنکاروں اور موچیوں کی وجہ سے مشہور ہوں گی البتہ غیبت گلی، بیگم گلی اور دوپٹہ گلی نام رکھنے کی نوبت کیوں آئی یہ معلوم نہیں۔ ”غیبت گلی “پاکستان کے ایک مقبول نجی چینل کے برابر والی گلی ہے۔ صحافی یہاں بیٹھ کر اپنے پیٹی بھائیوں اور سیاست دانوں کی خوب غیبتیں کرتے ہیں۔ ”بیگم گلی “نام شاید اس وجہ سے پڑا ہوگا کہ مذکورہ گلی میں سارے مرد ہی رہتے ہوں گے جنہیں ہم عرفِ عام میں ”چھڑے“ کہتے ہیں ۔ بعد ازاںکوئی دلہن یہاں بیاہ کر لائی گئی ہو گی اس وجہ سے اس گلی کو پہلی ”بیگم گلی “ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہوگا۔ دوپٹہ گلی بھی لڑکیوں کی وجہ سے پڑا ہوگا ورنہ مردوں کا دوپٹے سے دور کا بھی وابستہ نہیں ۔
کراچی کی کئی چورنگیوں کے نام بھی بڑے دلچسپ ہیں ان میں ناگن چورنگی، دو منٹ چورنگی وغیرہ شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں ناگن چورنگی والی جگہ گاڑیاں رُکنے کا نام نہیں لیتی تھیں اور تیز رفتاری کی وجہ سے بے تحاشہ ایکسیڈنٹ ہوتے تھے اسی وجہ سے اس جگہ کا نام ”ناگن چورنگی “پڑ گیا۔اگر آپ کو تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہے تو ایک بار ناگن چورنگی ضرور جایئے گا۔ دو منٹ چورنگی کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں بسیں صرف دو منٹ کیلئے رُکتی ہیں مگر نہیں بلکہ چند سال قبل یہاں سرکاری بسوں کا ایک ڈپو تھا جہاں سے ہر دو منٹ بعد ایک بس چلتی تھی۔ اگر آپ کے بھائی کراچی سے دور ہیں اور آپ اُن سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ”بھائی جان چوک“ کو سلام کرلیں۔ کسی سے پٹنے یاپیٹنے کا ارادہ ہے تو ”پٹنی اسٹاپ“ بھی دور نہیں ہے۔ ڈانس کرنے کا شوق ہے تو ”ڈسکو موڑ“ بھی موجود ہے۔ جیل کی دال روٹی یاد آ رہی ہے تو ”جیل چورنگی“ کا چکر ضرور لگایئے گا۔ کریلہ ایک بہت اہم سبزی ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ پسند ہیںتو ”کریلہ اسٹاپ“ پر رُک کر دیکھئے۔ زندگی کو دکھوں اور پریشانیوں نے گھیر رکھا ہو تو خودکشی ہرگز نہ کیجئے گا کیونکہ یہ حرام ہے۔ اگر پھر بھی دل میں ایسے خیالات آنے لگیں تو ”نالہ اسٹاپ“ کس دن کام آئیگا۔ کسی کے دانت توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اُسے ”مکا چوک“ پر بُلا لیں۔ یہاں سے فارغ ہو کر ”چمڑی چوک“ بھی جا سکتے ہیں۔
کراچی کے لوگ زندہ دل ہیں اور کسی سے محبت کا اظہار کرتے وقت بھی مختلف جگہوں کی سیر کرا دیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی محبوبہ سے اظہارِ محبت بھی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔۔۔ کیسے بتاﺅں کہ تم میری کون ہو۔۔۔ والز کی آئس کریم ہو یا پولکا کی کون ہو۔۔۔ کیسے بتاﺅں کہ تم بہت ڈھیٹ ہو۔۔۔ بہت بڑی پھٹیک ہو۔۔۔ تم اورنگی، تم کورنگی ، تم ہی میری ناگن چورنگی۔۔۔ لیاری کی تم فٹ بال ہو۔۔۔ کیماڑی کی تم بند ہو۔۔۔ منوڑہ کی تم ٹھنڈ ہو۔۔۔ تم کھار دار۔۔۔ تم میٹھادار۔۔۔ تم ہی میرے لئے گولیمار ہو۔۔۔ تم ہی میری دھوتی اور شلوار ہو۔۔۔ میں نے تجھے قبول کیا اگرچہ تم جاہل اور گنوار ہو۔۔۔ تم ہی میم پوری۔۔۔ تم ہی گٹکا۔۔۔تم ہی مکس پتی کا پان ہو۔۔۔ کیسے بتاﺅں کہ تم میری کون ہو۔ ۔۔ لالو کھیت میں رہتی ہو۔۔۔ خود کو ڈیفنس کا کہتی ہو۔۔۔ لمبی لمبی چھوڑتی ہو۔۔۔ ہمیشہ سے ہو خوار تم۔۔۔ہو سردی کا بخار تم۔۔۔شکارپور کی اچار تم۔۔۔ پشاور کی نسوار تم۔۔۔ اور پی آئی اے کا جہاز ہو جو کبھی وقت پر نہیں ملتی۔۔۔ وہ پرواز ہو جو ہمیشہ شاٹ رہتی ہو۔۔۔ مہنگائی کے اس دور میں سوا روپے کی نیاز ہو۔۔۔ کیسے بتاﺅں کہ تم میری کون ہو۔۔۔ میں روکتا بس تم کو ہوں۔۔۔ میں ٹوکتا بس تم کو ہوں۔۔۔ تم ہی میرا کل تھیں۔۔۔ تم ہی میرا آج ہو۔۔۔ تم ہی مارشل لائ۔۔۔ تم ہی جمہوریت ۔۔۔ اور گورنر راج ہو۔۔۔ میری ٹی ٹی تم۔۔۔ میرا رپیٹر تم۔۔۔ میرا راکٹ لانچر تم۔۔۔تم ہی میری سوچ ہو۔۔۔ اور میرے پاﺅں کی موچ ہو۔۔۔ کراچی کی سڑکوں پہ گویا دندناتی ہوئی کوچ ہو۔۔۔ میرے دل میں تم۔۔۔ خوابوں میں تم۔۔۔ رکشا میں تم۔۔۔ ٹیکسی میں تم۔۔۔ ٹانگے میں تم۔۔۔ ٹرک میں تم۔۔۔ ٹرالر میں تم۔۔۔ میری ہونڈا ففٹی تم۔۔۔ سیونٹی تم۔۔۔ لاہور کا ٹانگہ ہو تم۔۔۔ سکھر کی سوزوکی ہو تم۔۔۔ اور کیا بتاﺅں میری جان کہ تم میرے لئے کون ہو۔۔۔ ارے تم تو پورا پاکستان ہو۔۔۔ کراچی کی پہچان ہو ۔۔۔ اور میری جان ہو۔۔۔ کیسے بتاﺅں کہ تم میری کون ہو۔
کراچی میں کیماڑی کا علاقہ خاصا مشہور ہے۔ احمد رشدی نے کسی زمانے میں ایک گانا گایا تھا جو بے انتہاءمقبول ہوا۔ اس گانے کے بول کچھ اس طرح تھے ”بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پہ“ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں جب یہ گانا گایا گیا اُس وقت میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا البتہ جب میں چھوٹا سا تھا تب یہ گانا ریڈیو پر آتا تھا۔ اس گیت نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ بعد میں اسے معین اختر مرحوم نے بھی کاپی کیا۔ بعد ازاں جب میں نے اس گانے کی ویڈیو دیکھی تو اُس میں ایک تانگہ بندر رڈ سے کیماڑی کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور اُس پر سوار ایک لڑکی کراچی کی سیر سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے ۔ اُس وقت سڑکوں پر ٹریفک بھی کم دیکھنے کو ملتی تھی لیکن آج کا کراچی پہلے سے کافی مختلف ہے۔ ٹریفک کے رش میں ایک بار آپ پھنس جائیں پھرمنزل تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ ایک شخص کراچی کی گنجان ٹریفک کے علاقے میں سے گزرتے ہوئے بیچ سڑک پر اچانک سائیکل روک کر کھڑا ہو گیا اور اپنا ٹفن باکس کھول کر چیک کرنے لگا۔ سارا ٹریفک جام ہو گیا اور ہارن پر ہارن بجنے لگے ۔ آخرکار ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی آیا اور اُس شخص سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ وہ بولا میں چیک کر رہا ہوں کہ میں ڈیوٹی سے آ رہا ہوں یا ڈیوٹی پر جا رہا ہوں۔ اگر ٹفن میں کھانا ہوگا تو اس کا مطلب کہ میں ڈیوٹی پر جا رہا ہوں اگر ٹفن خالی ہے تو اس کا مطلب کہ میں ڈیوٹی سے واپس آ رہا ہوں۔اس سب کے باوجود کراچی پھر بھی کراچی ہے۔
مضمون بشکریہ
نجم شاہ
ربط
http://alqamar.info/2011/05/کراچی-پھر-بھی-کراچی-ہے.html
 
Top