محسن وقار علی
محفلین
سر چارلس جیمز نیپئر — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
کراچی کا نیپئر روڈ امیران سندھ کو شکست دینے والے برطانوی جرنیل سر چارلس جیمز نیپئیر کے نام سے منسوب ہے۔ یہ سڑک لی مارکیٹ سے شروع ہو کر ڈینسو ہال پر ختم ہو جاتی ہے۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء اور اسلامائزیشن سے قبل اس سڑک پر راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ یہاں رات ہوتے ہی لی مارکیٹ سے لے کر مرحوم نگار سینما تک سڑک کے دونوں اطراف میں موجود عمارتوں میں ناچ گانے اور راگ رنگ کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ بڑے بڑے روساء، مالدار اور ادیب و شاعر بھی ان محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اردو زبان کے معروف شاعر ساقی فاروقی اپنی کتاب “آپ بیتی، پاپ بیتی” کے صفحہ نمبر 84, 85 پر لکھتے ہیں کہ:
’’اس زمانے میں جالب اپنے بڑے بھائی مشتاق مبارک کے ساتھ جیکب لائنز میں رہتا تھا۔ صدر کی آوارہ گردی کے بعد رسا تو اپنی بیوی کو دِق کرنے کے لیے اپنے گھر چلا جاتا، میں کبھی اپنے گھر ( قاسم آباد) کبھی سونے کے لیے جالب کے بھائی کے گھر چلا جاتا کہ قریب تھا۔
مبارک کسی سرکاری دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ سر تال کے داؤ پیچ سے کماحقہ، آگاہ۔ اتنے کے نیپئر روڈ کی گانے والیاں انہیں جھک کر سلام کرتیں۔ دو تین بار مجھے بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ کبھی اکیلے کبھی جالب کے ساتھ. جب ہم کوٹھے پر گئے بائی جی صاحبہ نے احتراماََ اس وقت تک گانا بند رکھا جب تک یہ بیٹھ نہیں گئے۔ تب پتا چلا کہ جالب کی آواز’خداداد’ نہیں ‘خون داد’ تھی”۔
نیپئر روڈ، کراچی — فوٹو — مصنف
نیپئر روڈ پر سے سب سے مشہور بلڈنگ بلبل ہزار داستان تھی لیکن ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دور میں پویس کی بے جا سختیوں نے اس عمارت اور اس طرح کی دیگر عمارتوں میں ہونے والی سرگرمیوں کو ختم کر دیا۔
ایک بار ہم ریڈیو پاکستان کے ایک سینئر موسیقار سے ملنے نیپئر روڈ ان کے گھر گئے تو اس عمارت میں دو تین گھروں پر لگے گتوں کے بورڈ پر لکھا ہوا تھا کہ یہ “شریفوں کا گھر ہے”۔ اس سڑک پر مشہور نگار سینما بھی کافی عرسے سے بند ہے۔ اس کی آخری نشانی ایک زنگ آلود بورڈ اور اس کے نیچے ایم کیو ایم کے پرچم کے رنگ سے رنگا میاں نواز شریف کے انتخابی نشان شیر کا مجسمہ نصب ہے۔ غالباً اس پر ابھی تک کسی مسلم لیگی رہنما کی نظر نہیں پڑی ورنہ ممکن ہے یہ شیر کسی مسلم لیگی انتخابی دفتر کے باہر موجود ہوتا۔ لیکن نہیں نہیں یہ شاید کہیں بت پرستی کے زمرے میں نہ آجائے۔
فوٹو — مصنف –.
ویسے بھی انڈیا میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بابری مسجد کے انہدام کی کوشش کے بعد اُس وقت کی مُسلم لیگی حکومت نے پنجاب میں جس بت شکنی کا ثبوت دیا تھا اگر محمود غزنوی زندہ ہوتا تو شرما کر رہ جاتا۔ اس بیچارے نے سترہ حملوں کے بعد سومناتھ کا مندر فتح کیا تھا لیکن مسلم لیگیوں نے ایک ہی حملے میں پورے پنجاب کے مندر فتح کر لیے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ محمود غزنوی کو سومناتھ کا بت توڑنے کے بعد اُس سے زیادہ مال ملا جس کی پیشکش ہندو پُجاریوں نے کی تھی۔ لیکن ہمارے مسلم لیگیوں کے ہاتھ ‘نیک نامی’ کے علاوہ کچھ بھی نہ آیا۔ بت شکنوں کے لیے انتخابی نشان کو نمایاں کرنے کے لیے فوم کے بنے ہوئے مجسمے بہتر ہیں پتھر کے نہیں۔
علاقے کے ایک نوجوان جاوید نے نگار سینما کی بندش کے بارے میں بتایا کہ حالات خراب ہونے کے بعد پختون بھائی یہاں فلمیں دیکھنے نہیں آتے تھے۔ اس لیے سینما آہستہ آہستہ بند ہوگیا۔
بھلا ہو ذوالفقارعلی بھٹو کاجنہوں نے اچھے وقتوں کلفٹن کے پل سے ان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن تک جانے والی سڑک پر اپنی پارٹی کے انتخابی نشان تلوار کی پتھر سے بنی ہوئی بڑی بڑی تلواریں نصب کر وا دی تھیں۔ اس سڑک کے جس چوراہے پر تین تلواریں نصب تھیں پر انگریزی میں لکھا ہوتا تھا؛
UNITY, FAITH, DISCIPLINE یعنی اتحاد، تنظیم، یقین محکم۔ ضیاء دور میں یقین محکم کی جگہ ایمان لکھ دیا گیا۔ بھٹو صاحب نے 1977ء میں پاکستا ن قومی اتحاد کی جانب سے جمہوریت کے بجائے نظام مصطفی کے نعرے کا یہ توڑ نکالا کہ اتوار کے بجائے جمعہ کی چھٹی اور نائٹ کلبس اور شراب خانے بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
یہ تو نو ستاروں کی لاعلمی تھی کہ انہوں نے پتھر سے بنی ہوئی ان تلواروں کی مسماری کا مطالبہ نہ کیا۔ وگرنہ بھٹو صاحب شاید یہ بھی مسمار کروا دیتے۔ وہ تو بھلا ہو جنرل ضیاء کا جنہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے کچھ عرصے بعد اقلیتی برادری کے لیے شراب خانے دوبارہ کھولنے کے احکامات جاری کر دیے۔ مسلمانوں کی جانب سے اقلیتی برادری کے لیے اس سہولت پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
اعجاز الحق قدوسی اپنی کتاب تاریخ سندھ جلد سوئم کے صفحہ نمبر 39 پر سر چارلس جیمز نیپئر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس نے امیران سندھ کی حکومت کے ختم کرنے میں بڑا حصہ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے ہاتھوں تالپروں کی حکومت کا آفتاب غروب ہوا وہ یہی چارلس نیپئر ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں کہ 1847ء میں نیپئر آل ہند کی فوج کا سپہ سالار مقرر ہوا، ساتھ ہی 1849 سے چھ دسمبر1850 تک ہندوستان کی فوج کا کمانڈر ان چیف رہا۔ لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل ہند کی مخالفت کی بنا پر نیپئر نے اس خدمت سے استعفیٰ دے دیا اور خانہ نشین ہو گیا۔ انتیس اگست 1853 کو اس نے انتقال کیا اور سینٹ پال کے گرجا میں مدفون ہوا۔ وہاں اس کے مجسمے پر ایک کتبہ ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ : “جنرل دوربین حکمران باکفایت مرد عادل”.
تاریخ کی روشنی میں پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کیسا مرد عادل تھا کہ جس نے امیران سندھ اور ان کی بیگمات پر کیا مظالم نہ توڑے۔ اسی نے امیران سندھ کو قید کرکے جلاوطن کیا۔ اس کی انتظامیہ مشینری نہایت سخت تھی۔
نیپئر نے اس جدید حکومت کی تشکیل کی جو سندھ میں امیران سندھ کے بعد انگریزوں کو حاصل ہوئی تھی۔ جیسا کہ قدوسی صاحب کے مطابق نیپئر نے امیران سندھ کی بیگمات پر مظالم توڑے، یہ تو تھا نیپئر کی شخصیت کا ایک رخ۔ اے ڈبلیو ہیگ اپنی مرتبہ گزیٹئر بابت صوبہ سندھ کے صفحہ نمبر 50,51 پر لکھتے ہیں کہ سر چارلس نیپئر نے سندھ میں خواتین کی خودکشیوں کے بارے میں تحقیقات کی تو یہ انکشاف ہوا کہ مقامی خواتین کسی بھی عذر کے تحت اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خود کشی کی ہے۔ سر چارلس نیپئرنے 1849ء میں صوبے بھر کے مجسٹریٹوں کو اس جرم کے خاتمے کے لیے احکامات جاری کیے اور اس موقع پر ایک فرمان جاری کیا جس کا متن حسب ذیل ہے:
“اے سندھیو، بلوچو اور مسلمانوں! تمہارے نبی نے بھی قتل کی ممانعت کی ہے۔ تم میں سے اپنی عورتوں کو قتل کرنے والے صرف اپنے ہی مذہب کی توہین کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ ہمارے مذہب کی بھی توہین کرتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت نہیں دے گی لہٰذا حکومت انہیں سزا دے گی اور یہ جرم معدوم ہو جائے گا۔ تم میں سے کچھ احمق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو قتل کر کے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ مقتولاؤں نے خودکشی کی ہے۔ کیا تمھارا خیال ہے کہ حکومت اس بات پر یقین کر لے گی؟ کہ ان عورتوں نے خودکشی کی ہے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ حکومت کو ان شیطانی ہتھکنڈوں سے دھوکہ دے کر خواتین کو قتل کیا جا سکتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ تمھیں یہ سبق سکھایا جائے کہ تمہارا یہ فیصلہ کس قدر غلط ہے۔ اور اگر تم اس پر ڈٹے رہے تو تمھیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں باضابطہ طور پر خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی گاؤں میں کوئی عورت قتل ہوئی تو پورے گاؤں پر سختی سے بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ حکومت کاردار (مختیار کار، تحصیل دار) کو برطرف کر دے گی۔ اور مقتولہ کے شوہر اور تمام رشتے داروں کو کراچی پیش ہونے کے احکام جاری کرے گی۔ یہ تمہارے لیے سخت خطرے اور عذاب کا پیش خیمہ ہو گا، جس سے تم پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔ اگر تمہارے ضلع میں کسی عورت نے خودکشی کی تو وہ پورے علاقے کے لیے بدترین دن ہو گا۔
تم سب جانتے ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اس فرمان کے اجراء کے بعد عورتوں کی خودکشی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملنی چاہیے۔ شوہر اپنی بیویوں کو قطعی قتل نہ کریں۔ اس سال خواتین کی ایک بڑی تعداد مردہ پائی گئی ہے۔ ان کے خاندانوں کی جانب سے جھوٹ سے کام لیا گیا ہے کہ انھو ں نے خودکشی کی ہے لیکن ان کے شوہروں کو سخت سزا دی جائے گی۔ تاکہ سنگین جرائم میں ملوث لوگ انگریز حکومت کی تذلیل نہ کر سکیں۔ قاتلوں کو لازمی مشقت کے لیے کالے پانی بھیجنا چاہیے۔ تاکہ ان کی آواز دوبارہ سنائی نہ دے۔”
قدو سی صاحب شاید سچ ہی کہتے ہوں لیکن امیروں کی عورتوں پر ظلم توڑنے والا یہ شخص غریب اور مظلوم عورتوں کے حقوق کی پاسداری کس حد تک کرتا تھا وہ اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے۔ محکمہ اطلاعات سندھ کے ماہ وار رسالے پیغام کے شُمارے مئی۔2004 کے مطابق صرف یہی نہیں اُن کے دور میں جیکب آباد کے علاقے میں آٹھ افراد کی جانب سے ایک خاتون کو کاروکاری کے نام پر قتل کیا گیا انھوں نے واقعہ میں ملوث تمام افراد کو گولی سے اڑانے کا حکم جاری کیا اور مرکزی ملزم کا ہاتھ کاندھے سے کاٹنے کا حکم بھی جاری کیا۔
محمد عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں سر چارلس جیمز نیپئر کے بارے میں لکھتے ہیں اگرچہ وہ سندھ کا غاصب تھا اور اس ضمن میں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، مگر جہاں تک اس کی کراچی سے محبت کا تعلق ہے وہ نہ صرف بے لوث بلکہ بے مثل بھی تھی۔ اس نے اس شہر کو جو ترقی، عزت اور اہمیت بخشی اس کے لیے اسے اہل کراچی فراموش نہ کر سکیں گے۔ وہ اس شہر کا اس قدر خیر خواہ تھا کہ اس نے اپنی پہلی فرصت میں اسے سندھ کا دارالحکومت قرار دیا اور اس شہر کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو گیا۔
اس کے عہد میں کراچی ایک معمولی سی بستی سے ترقی کر کے ایک بین الاقوامی اور جدید شہر بن کر ابھرا اور پھر ترقی کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ وہ پیار سے کراچی کو سونے کی چڑیا کہا کرتا تھا۔ جب وہ کراچی سے بمبئی کے لیے روانہ ہو رہا تھا تو اس کی آنکھیں کراچی کی محبت میں اشک بار تھیں۔ یکم دسمبر 1847ء کو سر چارلس نیپئر کے اعزاز میں اہلیان کراچی نے الوداعی تقریب منقعد کی تھی 1853ء میں مول پل کے کیماڑی والے سرے پر چارلس نیپئر کا مجسمہ نصب کرایا گیا تھا اور 1901ء میں اس کی مرمت بھی کرائی گئی تھی۔
فوٹو — مصنف –.
عثمان دموئی کے مطابق اس سڑک کا نام اب میر کرم علی خان تالپر روڈ ہے۔ ہماری بڑی کوشش کے بعد بھی نیپیر روڈ پر میر صاحب کے نام کی کوئی علامت نظر نہ آئی۔ ہاں البتہ بینکوں اور عمارتوں پراس سڑک کا نام نیپئیر روڈ ہی ہے۔ جس نے بھی نام تبدیل کیا تھا اُس کے ذہن میں شاید تالپروں کی نیپیئر کے ہاتھوں شکست کا بدلہ اسی صورت میں مُمکن تھا کہ نیپئیر روڈ کا نام کسی تالپُر کے نام پر رکھ دیا جائے۔
تحریر:اختر بلوچ
بہ شکریہ ڈان اردو