محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
کراچی کے نتائج نے پاکستان پر سکتہ طاری کر دیا۔ ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم کے بعد خیال یہ تھا کہ مینڈیٹ کا بھی بٹوارہ ہوگا،کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان کے معاشی گڑھ کی نمائندگی ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی محض’’ گارڈز کی تبدیلی‘‘ کی طرح ہو گی،کیا یہ لسانی سیاست سے قومی سیاست کی طرف مراجعت ہے یاصرف ’’میک شفٹ‘‘ انتظام ہے.1970میں جب پاکستان نے پارلیمانی جمہوریت کا سفر شروع کیا تب سے ایسا پہلی بار ہواہے کہ کراچی سے اس پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے جو وفاق میں حکومت بنانے جارہی ہے۔کراچی جو شہر اپوزیشن کی علامت ہے، ن لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے کبھی یہاں سے اکثریت حاصل کی ہے، ایم کیو ایم حکمران اتحاد کا حصہ ضرور رہی ہے لیکن جونیئر پارٹنر کے طور،اس کی نظیر بھی نہیں ملتی کہ جس پارٹی نے مہاجروں کے مضبوط علاقوں سےکامیابی حاصل کی اسے ان علاقوں سے بھی اکثریت ملی جہاں مہاجراکثریت نہیں،مثال کے طورلیاری، ملیر ساؤتھ اور ویسٹ۔ ماضی میں ایم کیو ایم نے تمام حلقوں سے ضرورکامیابی حاصل کی لیکن وہ لیاری اور ملیرسے کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ قطع نظر اس کے کہ دھاندلی اور انجینئرنگ کے سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں کراچی کےمائنڈ سیٹ میں رونماہونے والی تبدیلی میں اور عوامل بھی کارفرماہیں۔
اس مائنڈ سیٹ کو پہلی بار 2013 میں محسوس کیاگیا تھا۔
دوم ،اب کراچی مہاجروں کاشہر نہیں رہا،گزشتہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعداس شہر میں اب دیگر اہم برادریوں کی تعداد مہاجروں کے برابرہو گئی ہے۔
سوم، اب مہاجر نوجوانوں کی سوچ میں بھی واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔گزشتہ دس سال کے دوران خود کو اس نے اسی کی دھائی کی لسانی سیاست سے فاصلے پررکھا ہے،ان کا خیال ہے کہ پرتشدد سیاست نے انہیں بری طرح متاثرکیاہے۔
چہارم، پہلی بار مہاجروں کا’’متحدہ ووٹ بینک ‘‘ تقسیم ہوا ہے،اس کامحرک ایم کیو ایم کی تقسیم اور عمران خان کی کرشماتی قیادت میں پی ٹی آئی کامتبادل کے طورابھرناہے۔جاوید میاں داد جو کراچی کے ایک مہاجر تصورکیےجاتے ہیں،انہوں نے بھی عمران خان کی حمایت کی،اس سے رونما ہونے والی تبدیلی کااندازہ لگانامشکل نہیں۔
پنجم،2015سے2017کےتین سال میں جس طرح کراچی کے الیکشن کو مینج اورٹیون کیا گیا،خاص طور سے الیکشن کے دن، اس کے نتائج نے نہ صرف ہارنے والوں کو بلکہ جیتنے والوں کو بھی حیران کردیا،جیتنے والوں کو بھی یقین نہیں تھا شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کراچی کے نتائج میں 24سے36گھنٹے تک دیر کی گئی۔ دو سیاسی جماعتیں جن کاکراچی سے مکمل صفایا ہوگیا، ان میں ایک نو آموز پاک سر زمین پارٹی ہے، جس کی تقدیر 1992کی ایم کیو ایم حقیقی سے مختلف ثابت نہیں ہوئی،دوسری جماعت اسلامی یا ایم ایم اے ہے۔ ہمیں انتظارکرناہو گا کہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کیا بم گراتےہیں ، جیسا کہ ہم نے اگلے روز جیو پر سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو میں دیکھا کہ انہوں نے بڑی مشکل سے خود کوقابو میں رکھا ہوا تھا۔ انہیں الیکشن سے چار دن قبل کیاپیغام ملا ؟ ناقدین کا خیال ہے کہ جس طرح نوے کی دھائی میں آفاق اور عامر کو استعمال کیاگیاکمال قائم خانی بھی ایسے ہی استعمال ہوئے، پی ایس پی کا موجودہ بیانیہ حقیقی سے مختلف ہے۔دوسری جماعت ،جماعت اسلامی ہے جو ایک بار پھرکوئی تاثر قائم کرنےمیں ناکام رہی، یہ پاکستان کی سب سےمنظم جماعت ہے،سترکی دھائی میں جس کا کراچی میں طوطی بولتا تھا،دو بار اس کے میئرمنتخب ہوئےاس کی انتخابی کارکردگی مسلسل زوال کاشکارہے۔ 2018کے الیکشن نتائج پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سب سے بڑا اپ سیٹ تھے ،جو لیاری اور ملیرکے اپنے محفوظ ترین حلقوں سے ہارگئی۔ وہ 1970کے بعد وہ پہلی بارلیاری سے ہاری ہے اور وہ بھی ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شکست کی صورت میں ۔ اسے نہ صرف تحریک انصاف نے شکست دی بلکہ تحریک لبیک پاکستان نے بھی شکست سے دوچارکیا یہ الیکشن2018کی سب سے بڑی سرپرائز پارٹی ہے،جس نے پنجاب میں ن لیگ اورکراچی میں ایم کیو ایم پاکستان ،پی پی پی کو نقصان پہنچایا اورصوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں حاصل کیں۔ تحریک لیبک نےکراچی کی قومی اسمبلی کے اکیس اورصوبائی اسمبلی کے43حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے،جہاں انہوں نے بڑی تعداد میں ووٹ بھی حاصل کیےاور ایم کیو ایم اور پی پی پی جیسی جماعتوں کااچھا خاصا نقصان پہنچایا،اس کےامیداروں نے 15ہزار سے 40 ہزار تک ووٹ حاصل کیے۔پی ٹی آئی نے2013کے الیکشن میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، اس وقت کی ایم کیو ایم نے زمینی حالات اور عمران لہرکا بہت غلط اندازہ لگایا، اگرچہ پی ٹی آئی نے اس الیکشن میں سات لاکھ ووٹ ،قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین سیٹیں ہی حاصل کی تھیں،لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس لہرنے مہاجر علاقوں میں بھی ڈنٹ ڈالا،ایم کیو ایم کےمضبوط حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مہاجر یوتھ نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا،ایم کیو ایم نے یقنیی طور پر بہتری دکھائی لیکن اس سے پہلے ہی مصطفیٰ کمال، انیس قائم خوانی، رضاہارون، انیس ایڈوکیٹ نے نائن زیرو، عزیز آباد اور لندن میں ذلت اٹھانے کے بعد ملک چھوڑ دیاتھا،پھر وہ اپریل 2016میں واپس لوٹے اور پی ایس پی قائم کی۔ پارٹی ڈھانچہ اورکارکردگی بہتر بنانا ایم کیو ایم کا 34 سال میں سب سے بڑا مخمصہ رہا، وہ شہر کو ’’بندوق‘ سے قابو کرنےکی شناخت سے بھی جان چھڑانے میں ناکام رہی، یہ بھی حقیقت ہےکہ1988اور1990کے دو الیکشن میں کلین سویپ کےبعد اس کا ووٹ بینک زوال کا شکار رہا،اگرچہ انہوں نے اپنی سیٹوں کو برقرا رکھا، تاہم ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ وہ الیکشن نتائج کو مینو پلیٹ کرتے ہیں، 2002 میں کیا ہوا جب ایم کیو ایم کراچی کی پانچ یا چھ اور حیدر آباد کی دو سیٹیں ہارگئی، ایم کیو ایم نے شاید بہت زیادہ غلطیاں کی ہیں لیکن اب بھی مضبوط مہاجر ووٹ ان کے ساتھ تھا،لیکن ہوا یہ کہ22اگست 2016کے بعد اس کی مزید تقسیم واقع ہوئی، پہلے ایم کیوایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین، پھر ایم کیو ایم ( پی آئی بی ) اور ایم کیو ایم ( بہاد ر آباد ) کے درمیان تقسیم ہوئی،اس کے باوجودایم کیو ایم ( پاکستان ) نے کراچی سے قومی اسمبلی کی چاراور حیدر آبادسے دو سیٹوں کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی سولہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
لنک
اس مائنڈ سیٹ کو پہلی بار 2013 میں محسوس کیاگیا تھا۔
دوم ،اب کراچی مہاجروں کاشہر نہیں رہا،گزشتہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعداس شہر میں اب دیگر اہم برادریوں کی تعداد مہاجروں کے برابرہو گئی ہے۔
سوم، اب مہاجر نوجوانوں کی سوچ میں بھی واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔گزشتہ دس سال کے دوران خود کو اس نے اسی کی دھائی کی لسانی سیاست سے فاصلے پررکھا ہے،ان کا خیال ہے کہ پرتشدد سیاست نے انہیں بری طرح متاثرکیاہے۔
چہارم، پہلی بار مہاجروں کا’’متحدہ ووٹ بینک ‘‘ تقسیم ہوا ہے،اس کامحرک ایم کیو ایم کی تقسیم اور عمران خان کی کرشماتی قیادت میں پی ٹی آئی کامتبادل کے طورابھرناہے۔جاوید میاں داد جو کراچی کے ایک مہاجر تصورکیےجاتے ہیں،انہوں نے بھی عمران خان کی حمایت کی،اس سے رونما ہونے والی تبدیلی کااندازہ لگانامشکل نہیں۔
پنجم،2015سے2017کےتین سال میں جس طرح کراچی کے الیکشن کو مینج اورٹیون کیا گیا،خاص طور سے الیکشن کے دن، اس کے نتائج نے نہ صرف ہارنے والوں کو بلکہ جیتنے والوں کو بھی حیران کردیا،جیتنے والوں کو بھی یقین نہیں تھا شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کراچی کے نتائج میں 24سے36گھنٹے تک دیر کی گئی۔ دو سیاسی جماعتیں جن کاکراچی سے مکمل صفایا ہوگیا، ان میں ایک نو آموز پاک سر زمین پارٹی ہے، جس کی تقدیر 1992کی ایم کیو ایم حقیقی سے مختلف ثابت نہیں ہوئی،دوسری جماعت اسلامی یا ایم ایم اے ہے۔ ہمیں انتظارکرناہو گا کہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کیا بم گراتےہیں ، جیسا کہ ہم نے اگلے روز جیو پر سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو میں دیکھا کہ انہوں نے بڑی مشکل سے خود کوقابو میں رکھا ہوا تھا۔ انہیں الیکشن سے چار دن قبل کیاپیغام ملا ؟ ناقدین کا خیال ہے کہ جس طرح نوے کی دھائی میں آفاق اور عامر کو استعمال کیاگیاکمال قائم خانی بھی ایسے ہی استعمال ہوئے، پی ایس پی کا موجودہ بیانیہ حقیقی سے مختلف ہے۔دوسری جماعت ،جماعت اسلامی ہے جو ایک بار پھرکوئی تاثر قائم کرنےمیں ناکام رہی، یہ پاکستان کی سب سےمنظم جماعت ہے،سترکی دھائی میں جس کا کراچی میں طوطی بولتا تھا،دو بار اس کے میئرمنتخب ہوئےاس کی انتخابی کارکردگی مسلسل زوال کاشکارہے۔ 2018کے الیکشن نتائج پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سب سے بڑا اپ سیٹ تھے ،جو لیاری اور ملیرکے اپنے محفوظ ترین حلقوں سے ہارگئی۔ وہ 1970کے بعد وہ پہلی بارلیاری سے ہاری ہے اور وہ بھی ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شکست کی صورت میں ۔ اسے نہ صرف تحریک انصاف نے شکست دی بلکہ تحریک لبیک پاکستان نے بھی شکست سے دوچارکیا یہ الیکشن2018کی سب سے بڑی سرپرائز پارٹی ہے،جس نے پنجاب میں ن لیگ اورکراچی میں ایم کیو ایم پاکستان ،پی پی پی کو نقصان پہنچایا اورصوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں حاصل کیں۔ تحریک لیبک نےکراچی کی قومی اسمبلی کے اکیس اورصوبائی اسمبلی کے43حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے،جہاں انہوں نے بڑی تعداد میں ووٹ بھی حاصل کیےاور ایم کیو ایم اور پی پی پی جیسی جماعتوں کااچھا خاصا نقصان پہنچایا،اس کےامیداروں نے 15ہزار سے 40 ہزار تک ووٹ حاصل کیے۔پی ٹی آئی نے2013کے الیکشن میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، اس وقت کی ایم کیو ایم نے زمینی حالات اور عمران لہرکا بہت غلط اندازہ لگایا، اگرچہ پی ٹی آئی نے اس الیکشن میں سات لاکھ ووٹ ،قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین سیٹیں ہی حاصل کی تھیں،لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس لہرنے مہاجر علاقوں میں بھی ڈنٹ ڈالا،ایم کیو ایم کےمضبوط حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مہاجر یوتھ نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا،ایم کیو ایم نے یقنیی طور پر بہتری دکھائی لیکن اس سے پہلے ہی مصطفیٰ کمال، انیس قائم خوانی، رضاہارون، انیس ایڈوکیٹ نے نائن زیرو، عزیز آباد اور لندن میں ذلت اٹھانے کے بعد ملک چھوڑ دیاتھا،پھر وہ اپریل 2016میں واپس لوٹے اور پی ایس پی قائم کی۔ پارٹی ڈھانچہ اورکارکردگی بہتر بنانا ایم کیو ایم کا 34 سال میں سب سے بڑا مخمصہ رہا، وہ شہر کو ’’بندوق‘ سے قابو کرنےکی شناخت سے بھی جان چھڑانے میں ناکام رہی، یہ بھی حقیقت ہےکہ1988اور1990کے دو الیکشن میں کلین سویپ کےبعد اس کا ووٹ بینک زوال کا شکار رہا،اگرچہ انہوں نے اپنی سیٹوں کو برقرا رکھا، تاہم ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ وہ الیکشن نتائج کو مینو پلیٹ کرتے ہیں، 2002 میں کیا ہوا جب ایم کیو ایم کراچی کی پانچ یا چھ اور حیدر آباد کی دو سیٹیں ہارگئی، ایم کیو ایم نے شاید بہت زیادہ غلطیاں کی ہیں لیکن اب بھی مضبوط مہاجر ووٹ ان کے ساتھ تھا،لیکن ہوا یہ کہ22اگست 2016کے بعد اس کی مزید تقسیم واقع ہوئی، پہلے ایم کیوایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین، پھر ایم کیو ایم ( پی آئی بی ) اور ایم کیو ایم ( بہاد ر آباد ) کے درمیان تقسیم ہوئی،اس کے باوجودایم کیو ایم ( پاکستان ) نے کراچی سے قومی اسمبلی کی چاراور حیدر آبادسے دو سیٹوں کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی سولہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
لنک