فاتح
لائبریرین
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
چلی تو مسافر اُچھلنے لگے ہیں
جو بیٹھے ہوئے تھے وہ چلنےلگے ہیں
قدم جا کے ٹخنوں سے ٹلنے لگے ہیں
جو کھایا پیا تھا اُگلنے لگے ہیں
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا
بے چارے کا حلیہ دگر ہو را ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
معلق بخود رفتگاں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
مقاماتِ صد اضطراب آ رہے ہیں
کہ پردہ نشیں بے نقاب آ رہے ہیں
سڑک پہ سوال و جواب آ رہے ہیں
بہر گام گر اے مگر ہو رہا
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
وہ اک پہلواں پیٹھ میں تھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے
کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کوئی نصف بیٹھا ہے، آدھا کھڑا ہے
جہاں بھی کھڑا ہے وہیں پر گڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
کہاں ہاتھ تھا اور کہاں جا پڑا ہے
جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
(سید ضمیر جعفری مرحوم)
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
چلی تو مسافر اُچھلنے لگے ہیں
جو بیٹھے ہوئے تھے وہ چلنےلگے ہیں
قدم جا کے ٹخنوں سے ٹلنے لگے ہیں
جو کھایا پیا تھا اُگلنے لگے ہیں
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا
بے چارے کا حلیہ دگر ہو را ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
معلق بخود رفتگاں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
مقاماتِ صد اضطراب آ رہے ہیں
کہ پردہ نشیں بے نقاب آ رہے ہیں
سڑک پہ سوال و جواب آ رہے ہیں
بہر گام گر اے مگر ہو رہا
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
وہ اک پہلواں پیٹھ میں تھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے
کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کوئی نصف بیٹھا ہے، آدھا کھڑا ہے
جہاں بھی کھڑا ہے وہیں پر گڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
کہاں ہاتھ تھا اور کہاں جا پڑا ہے
جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
(سید ضمیر جعفری مرحوم)
نوٹ: یہ نظم مجھے بے انتہا پسند ہے لیکن افسوس کہ ضمیر جعفری صاحب کی جس کتاب میں یہ نظم ہے وہ میرے پاس نہیں۔ میں نے ایک آڈیو سے جس میں ضمیر صاحب کسی مشاعرے میں یہ نظم پڑھ رہے ہیں، سُن کر لکھی ہے لیکن آڈیو کی کوالٹی اتنی خراب ہے کہ کئی مصرعے اندازے سے درست کرنے پڑے اور کئی سمجھ ہی نہ پایا۔ اگر آپ کے پاس یہ نظم کتاب میں موجود ہو تو براہِ کرم اغلاط کی درستگی کر دیجیے۔ شکریہ