سید شہزاد ناصر
محفلین
کراچی کی شان وشوکت میں پتھروں سے بنی خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے
ماضی کی شان و شوکت ہمیشہ دل کو لبھاتی ہے۔ شہروں کی عمارتیں اور کھنڈرات اس تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جو اس دور کا طرہ امتیاز تھی۔ تہزیب جب زوال پزیر ہو تو تاریخ کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ایسے شہروں کا ذکر ہے کہ جن کے کھنڈرات ان کے ماضی کی شان و شوکت بیان کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کے ویرانوں میں ماضی کے سایہ حرکت کرنے اور ماحول کو پراسرار بناتے ہوئے، تخیلات کو کہیں سے کہیں پہنچاتے ہیں، لیکن تمام شہر اپنی تہذیبوں کیساتھ گمنامی میں نہیں چلے جاتے، کراچی کا شمار بھی ان تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ جو اپنے ماضی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں اس کی عظمت رفتہ کی داستانیں ان تاریخی عمارتوں میں نظر آتی ہیں۔ جنہیں امتداد زمانے نے کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستیوں میں سے ایک کا نام کولاچی جو گوٹھ تھا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونٹوبارا (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور باربریکون، جوکہ ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عرب اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔
1772ء میں گاؤں کولاچی جو گوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو کھارادر (سندھی میں کھارو در) کہا جاتا اور دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیے اس کو میٹھادر (سندھی میں مٹھو در) کہا جاتا تھا۔1795ء تک کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ کراچی کی ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو اس شہر کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔
1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔
کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔
1947 میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔
کراچی کی شان وشوکت میں صدر، کنٹونمنٹ، کلفٹن ، بندر روڈ پر پتھروں سے بنی خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے۔ اس شہر کی تاریخی شان و شوکت کی گواہی دیتی یہ عمارتیں آج زبوں حالی اور یاس کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔ ، ستائیس دسمبر 2009 کو ہونے والے بم دھماکے کے بعد بندر روڈ کی اکثر تاریخی عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ شہر میں بہت سی عمارتیں منہدم ہوکر نئے پلازے اور شاپنگ سنٹر میں تبدیل ہورہی ہیں۔ تاریخی آثار مٹ رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت سے لے کر ٹاور تک کی سڑک جو کبھی بندر روڈ کہلاتی تھی ( جسے بعد میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا) پر ایسی کئی عمارتیں تھیں جنہیں وقت کی دیمک تو کھوکھلا نہیں کرسکی لیکن یہ تخریب کاری ، پیشے کی ہوس، اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تباہ برباد ہورہی ہیں۔ مشہور گانا بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رہے گھوڑا گاڑی میں ان عمارتوں کا خوبصورت انداز میں تعارف کرایا گیا تھا۔ کبھی اس مصروف ترین سڑک پر یہاں ٹرامیں چلتیں تھیں اور زندگی انتہائی پرسکون گزرتی تھی۔لیکن بدلتے حالات نے کراچی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ دھواں، دھول، کچرے کے ڈھیر اور ٹریفک کے اژدھام میں شہر کا پرانا حصہ گھٹن کا شکار ہے۔
یاسمین لاری ماہرِ تعمیرات ہیں اور کراچی کی قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی رکھنے والی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری نے کراچی کے ثقافتی ورثہ کو بچانے کے لئے طویل جہدوجہد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیسنو ہال کے پورے بلاک میں بارہ عمارتیں ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ان میں سے پانچ کو قومی ورثہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ان کے مطابق انگریز اس علاقے کو نیٹیو ٹاؤن یا بلیک ٹاؤن کہتے تھے، اٹھارہ سو تینتالس میں بندر روڈ بنایا گیا تو اس کے بعد قدیم شہر بڑھنا شروع ہوا اور اس علاقے کا نام مارکیٹ کوارٹر رکھا گیا۔یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ’اس علاقے میں جو عمارتیں ہیں وہ شہر کی سب سے قدیم عمارتیں ہیں ان کی اپنی ایک شناخت ہے، اگر یہ انگریز دور حکومت کی بھی ہیں تو کیا ہوا تعمیر تو یہاں کے لوگوں نے کی ہیں‘۔ حکومت سندھ نے 129/ تا ریخی مقامات حکومت سندھ کے حوالے کیے ہیں جن کی دیکھ بھال کے لیے حکومت سندھ ایک بورڈ آف مینجمنٹ تشکیل دیا ہے۔
شائد یہی سوچ تھی کہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے کراچی کی مزید 1061/ نجی اور سرکاری عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ محکمہ ثقافت نے جو فہرست جاری کی ہے اس میں کراچی جیم خانہ، عائشہ باوانی اسکول، میٹروپول ہوٹل، پرل کانٹی نیٹل ہوٹل، بمبئی ہوٹل (کینٹ اسٹیشن)، پی آئی ڈی سی ہاؤس، کیپری سنیما، پرنس سنیما، نشاط سنیما، سیفی ہوٹل، نگار سنیما، الفا ریسٹورنٹ، لوٹیا بلڈنگ، جاگیردار ہوٹل، مینی والا اسکول، سیونتھ ڈے اسپتال، ہولی فیملی اسپتال، ایف ٹی سی ہال شارع فیصل، سندھ میڈیکل کالج، جناح اسپتال، ہاکی کلب، بلوچ آفیسرز میس، فوارہ چوک (گورنر ہاؤس)، تین تلوار (کلفٹن) اور دیگر اہم اور قیمتی عمارتیں شامل ہیں۔ سندھ حکومت کا کلچر ڈیپارٹمنٹ رولز آف بزنس مجریہ 1986کے مطابق کلچر ڈیپارٹمنٹ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ثقافتی ورثے کی عمارتوں کا تحفظ اور نگہداشت کرے جہاں تک ثقافتی ورثے کی عمارتوں کو فہرست میں رکھنے اور فہرست سے نکالنے کی بات ہے یہ سندھ ثقافتی ورثہ (تحفظ) ایکٹ مجریہ 1994ء کی دفعہ 3کے تحت ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ مشاورتی کمیٹی حمید ہارون، ڈاکٹرکلیم اﷲ لاشاری (تاریخ دان) عارف حسین آرکیٹیکٹ اور مس انیلہ نعیم آرکیٹیکٹ پر مشتمل ہے۔ حکومت سندھ کے اعلامیے میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک 1061 بلڈنگوں کے مالکان اور کسٹوڈین اور عام پبلک اپنے اعتراضات حتمی فیصلے سے پہلے کلچر ڈیپارٹمنٹ میں داخل کراسکتے ہیں۔
کراچی میں بہت سی پرانی اور تاریخی عمارات خطرناک بھی ہوگئی ہیں۔ مدت سے ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہے۔ تجاوزات نے بھی انھیں تباہی سے دوچار کیا ہے۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے سال 2008 ء میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں شہر کی مختلف قدیم اور مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے) کی ٹیکنیکل کمیٹی نے جن 157 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا۔ ان میں ’’محفوظ ورثہ‘‘ کی 22 عمارتیں بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں صدر ٹاؤن میں واقع ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں 182 پرائمری 69 سیکنڈری اور 30 ایلیمنٹری اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستگی کے باعث حادثات کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کومحفوظ بنانے پرکافی توجہ دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند میں تباہی کا سب سے زیادہ نشانہ ثقافتی ورثے کو بنایا گیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی تاریخی ورثہ تباہی سے دوچار ہے، موہنجو ڈارو اب برباد ہوچکا ہے۔ اس کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ کراچی میں بھی یہی صورتحال ہے، کراچی کے دلچسپ مقامات میں ، نئے اور پرانے سب لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان میں مزار قائد۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ،مسجد طوبٰی۔ واحد گنبد کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد،آئی آئی چندریگر روڈ۔ پاکستان کی وال اسٹریٹ،آغا خان یونیورسٹی ہسپتال،ساحل کراچی ، ڈی ایچ اے مرینا کلب ،منوڑہ کا ساحل،کلفٹن اور جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ،سی ویو، کلفٹن،ڈی ایچ اے مرینا کلب،ہاکس بے،پیراڈائز پوائنٹ،سینڈز پٹ پوائنٹ،فرنچ بیچ،رشین بیچ،پورٹ فاؤنٹین۔ 600 فٹ بلند فوارہ،زمزمہ تجارتی مرکز۔ اپنے بوتیک اور کیفے کے کے لئے مشہور ہے۔
عبداﷲ شاہ غازی کا مزار،عجائب گھرپاکستان ایئر فورس میوزیم،قومی عجائب گھر،میری ٹائم میوزیم،موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر،کراچی ایکسپو سینٹر،برطانوی راج کے دور کی عمارات ایمپریس مارکیٹمیری ویدر ٹاور،فریئر ہال،خالقدینا ہال،جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ،گورنر ہاؤس،سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل،سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)،ہندو جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے)،ایمپریس مارکیٹ،سندھ کلب،جزائرکلفٹن آئسٹر روکس،منوڑہ،بنڈل،بھٹ شاہ،باغات بن قاسم پارک (سابق کلفٹن پارک)،سفاری پارک (یونیورسٹی روڈ)،الہ دین پارک (راشد منہاس روڈ)،سند باد،کراچی چڑیا گھر (گاندھی گارڈن)،سی ویو پارک،عزیز بھٹی پارک،عسکری پارک پرانی سبزی منڈی پارک (یونیورسٹی روڈ)،ہل پارک،کشتزار (فارم ہاؤسز)°ولیج گارڈن،میمن فارم ہاؤس،ڈریم ورلڈ ریزورٹ،ریس کورس،ایوان عکس،(سینیما)کیپری سینما،نشاط سینما،پرنس سینما،یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)،ہندو جمخانہ جیسے مقامات شامل ہیں۔ کراچی کے چند اہم تاریخی اور قومی ورثہ کے حامل مقامات میں چند یہ ہیں۔ ہائی کورٹ کی عمارت، سندھ اسمبلی بلڈنگ، ان میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت کو ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ کراچی کا قدیم ہوٹل ہوٹل میٹروپول بھی ان ہی تاریخی عمارتوں میں شامل ہے۔ جسے اب قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہوٹل اب ملبے کا ڈھیر ہے۔ ہوٹل کے ترجمان امتیاز مغل کا شکوہ بھی یہی ہے کہ جب ہوٹل ٹھیک تھا تو قومی ورثے میں نہیں لیا گیا اب توڑ پھوڑ کے بعد میدان بن گیا ہے تو اسے قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی ہوٹل کے سامنے لوٹیا بلڈنگ ہے۔ جو پرائیوٹ پراپرٹی ہے۔ اس سے چند قدم آگے سندھ کلب کی عمارت ہے۔ جہاں انگریز دور میں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں کتوں اور کالے آدمیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں کراچی میں سب سے پہلے بجلی لائی گئی تھی۔ اس سے آگے فریئر ہال ہے۔
ماضی کی شان و شوکت ہمیشہ دل کو لبھاتی ہے۔ شہروں کی عمارتیں اور کھنڈرات اس تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جو اس دور کا طرہ امتیاز تھی۔ تہزیب جب زوال پزیر ہو تو تاریخ کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ایسے شہروں کا ذکر ہے کہ جن کے کھنڈرات ان کے ماضی کی شان و شوکت بیان کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کے ویرانوں میں ماضی کے سایہ حرکت کرنے اور ماحول کو پراسرار بناتے ہوئے، تخیلات کو کہیں سے کہیں پہنچاتے ہیں، لیکن تمام شہر اپنی تہذیبوں کیساتھ گمنامی میں نہیں چلے جاتے، کراچی کا شمار بھی ان تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ جو اپنے ماضی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں اس کی عظمت رفتہ کی داستانیں ان تاریخی عمارتوں میں نظر آتی ہیں۔ جنہیں امتداد زمانے نے کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستیوں میں سے ایک کا نام کولاچی جو گوٹھ تھا۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیّاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونٹوبارا (ممکنً کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور باربریکون، جوکہ ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عرب اس علاقہ کو بندرگاہِ دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔
1772ء میں گاؤں کولاچی جو گوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو کھارادر (سندھی میں کھارو در) کہا جاتا اور دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیے اس کو میٹھادر (سندھی میں مٹھو در) کہا جاتا تھا۔1795ء تک کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ کراچی کی ترقی نے جہاں ایک طرف کئی لوگوں کو اس شہر کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف کھینچ لیں۔
1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔
کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔
1947 میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔
کراچی کی شان وشوکت میں صدر، کنٹونمنٹ، کلفٹن ، بندر روڈ پر پتھروں سے بنی خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے۔ اس شہر کی تاریخی شان و شوکت کی گواہی دیتی یہ عمارتیں آج زبوں حالی اور یاس کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔ ، ستائیس دسمبر 2009 کو ہونے والے بم دھماکے کے بعد بندر روڈ کی اکثر تاریخی عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ شہر میں بہت سی عمارتیں منہدم ہوکر نئے پلازے اور شاپنگ سنٹر میں تبدیل ہورہی ہیں۔ تاریخی آثار مٹ رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت سے لے کر ٹاور تک کی سڑک جو کبھی بندر روڈ کہلاتی تھی ( جسے بعد میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا) پر ایسی کئی عمارتیں تھیں جنہیں وقت کی دیمک تو کھوکھلا نہیں کرسکی لیکن یہ تخریب کاری ، پیشے کی ہوس، اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تباہ برباد ہورہی ہیں۔ مشہور گانا بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رہے گھوڑا گاڑی میں ان عمارتوں کا خوبصورت انداز میں تعارف کرایا گیا تھا۔ کبھی اس مصروف ترین سڑک پر یہاں ٹرامیں چلتیں تھیں اور زندگی انتہائی پرسکون گزرتی تھی۔لیکن بدلتے حالات نے کراچی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ دھواں، دھول، کچرے کے ڈھیر اور ٹریفک کے اژدھام میں شہر کا پرانا حصہ گھٹن کا شکار ہے۔
یاسمین لاری ماہرِ تعمیرات ہیں اور کراچی کی قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ قدیم عمارتوں اور ان کے فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی رکھنے والی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری نے کراچی کے ثقافتی ورثہ کو بچانے کے لئے طویل جہدوجہد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیسنو ہال کے پورے بلاک میں بارہ عمارتیں ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ان میں سے پانچ کو قومی ورثہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ان کے مطابق انگریز اس علاقے کو نیٹیو ٹاؤن یا بلیک ٹاؤن کہتے تھے، اٹھارہ سو تینتالس میں بندر روڈ بنایا گیا تو اس کے بعد قدیم شہر بڑھنا شروع ہوا اور اس علاقے کا نام مارکیٹ کوارٹر رکھا گیا۔یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ ’اس علاقے میں جو عمارتیں ہیں وہ شہر کی سب سے قدیم عمارتیں ہیں ان کی اپنی ایک شناخت ہے، اگر یہ انگریز دور حکومت کی بھی ہیں تو کیا ہوا تعمیر تو یہاں کے لوگوں نے کی ہیں‘۔ حکومت سندھ نے 129/ تا ریخی مقامات حکومت سندھ کے حوالے کیے ہیں جن کی دیکھ بھال کے لیے حکومت سندھ ایک بورڈ آف مینجمنٹ تشکیل دیا ہے۔
شائد یہی سوچ تھی کہ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت نے کراچی کی مزید 1061/ نجی اور سرکاری عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ محکمہ ثقافت نے جو فہرست جاری کی ہے اس میں کراچی جیم خانہ، عائشہ باوانی اسکول، میٹروپول ہوٹل، پرل کانٹی نیٹل ہوٹل، بمبئی ہوٹل (کینٹ اسٹیشن)، پی آئی ڈی سی ہاؤس، کیپری سنیما، پرنس سنیما، نشاط سنیما، سیفی ہوٹل، نگار سنیما، الفا ریسٹورنٹ، لوٹیا بلڈنگ، جاگیردار ہوٹل، مینی والا اسکول، سیونتھ ڈے اسپتال، ہولی فیملی اسپتال، ایف ٹی سی ہال شارع فیصل، سندھ میڈیکل کالج، جناح اسپتال، ہاکی کلب، بلوچ آفیسرز میس، فوارہ چوک (گورنر ہاؤس)، تین تلوار (کلفٹن) اور دیگر اہم اور قیمتی عمارتیں شامل ہیں۔ سندھ حکومت کا کلچر ڈیپارٹمنٹ رولز آف بزنس مجریہ 1986کے مطابق کلچر ڈیپارٹمنٹ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ثقافتی ورثے کی عمارتوں کا تحفظ اور نگہداشت کرے جہاں تک ثقافتی ورثے کی عمارتوں کو فہرست میں رکھنے اور فہرست سے نکالنے کی بات ہے یہ سندھ ثقافتی ورثہ (تحفظ) ایکٹ مجریہ 1994ء کی دفعہ 3کے تحت ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ مشاورتی کمیٹی حمید ہارون، ڈاکٹرکلیم اﷲ لاشاری (تاریخ دان) عارف حسین آرکیٹیکٹ اور مس انیلہ نعیم آرکیٹیکٹ پر مشتمل ہے۔ حکومت سندھ کے اعلامیے میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک 1061 بلڈنگوں کے مالکان اور کسٹوڈین اور عام پبلک اپنے اعتراضات حتمی فیصلے سے پہلے کلچر ڈیپارٹمنٹ میں داخل کراسکتے ہیں۔
کراچی میں بہت سی پرانی اور تاریخی عمارات خطرناک بھی ہوگئی ہیں۔ مدت سے ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہے۔ تجاوزات نے بھی انھیں تباہی سے دوچار کیا ہے۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے سال 2008 ء میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں شہر کی مختلف قدیم اور مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے) کی ٹیکنیکل کمیٹی نے جن 157 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا۔ ان میں ’’محفوظ ورثہ‘‘ کی 22 عمارتیں بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں صدر ٹاؤن میں واقع ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق کراچی میں 182 پرائمری 69 سیکنڈری اور 30 ایلیمنٹری اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستگی کے باعث حادثات کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کومحفوظ بنانے پرکافی توجہ دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند میں تباہی کا سب سے زیادہ نشانہ ثقافتی ورثے کو بنایا گیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی تاریخی ورثہ تباہی سے دوچار ہے، موہنجو ڈارو اب برباد ہوچکا ہے۔ اس کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ کراچی میں بھی یہی صورتحال ہے، کراچی کے دلچسپ مقامات میں ، نئے اور پرانے سب لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان میں مزار قائد۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ،مسجد طوبٰی۔ واحد گنبد کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد،آئی آئی چندریگر روڈ۔ پاکستان کی وال اسٹریٹ،آغا خان یونیورسٹی ہسپتال،ساحل کراچی ، ڈی ایچ اے مرینا کلب ،منوڑہ کا ساحل،کلفٹن اور جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ،سی ویو، کلفٹن،ڈی ایچ اے مرینا کلب،ہاکس بے،پیراڈائز پوائنٹ،سینڈز پٹ پوائنٹ،فرنچ بیچ،رشین بیچ،پورٹ فاؤنٹین۔ 600 فٹ بلند فوارہ،زمزمہ تجارتی مرکز۔ اپنے بوتیک اور کیفے کے کے لئے مشہور ہے۔
عبداﷲ شاہ غازی کا مزار،عجائب گھرپاکستان ایئر فورس میوزیم،قومی عجائب گھر،میری ٹائم میوزیم،موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر،کراچی ایکسپو سینٹر،برطانوی راج کے دور کی عمارات ایمپریس مارکیٹمیری ویدر ٹاور،فریئر ہال،خالقدینا ہال،جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ،گورنر ہاؤس،سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل،سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)،ہندو جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے)،ایمپریس مارکیٹ،سندھ کلب،جزائرکلفٹن آئسٹر روکس،منوڑہ،بنڈل،بھٹ شاہ،باغات بن قاسم پارک (سابق کلفٹن پارک)،سفاری پارک (یونیورسٹی روڈ)،الہ دین پارک (راشد منہاس روڈ)،سند باد،کراچی چڑیا گھر (گاندھی گارڈن)،سی ویو پارک،عزیز بھٹی پارک،عسکری پارک پرانی سبزی منڈی پارک (یونیورسٹی روڈ)،ہل پارک،کشتزار (فارم ہاؤسز)°ولیج گارڈن،میمن فارم ہاؤس،ڈریم ورلڈ ریزورٹ،ریس کورس،ایوان عکس،(سینیما)کیپری سینما،نشاط سینما،پرنس سینما،یونیورس سنیپلیکس (کلفٹن)،ہندو جمخانہ جیسے مقامات شامل ہیں۔ کراچی کے چند اہم تاریخی اور قومی ورثہ کے حامل مقامات میں چند یہ ہیں۔ ہائی کورٹ کی عمارت، سندھ اسمبلی بلڈنگ، ان میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت کو ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ کراچی کا قدیم ہوٹل ہوٹل میٹروپول بھی ان ہی تاریخی عمارتوں میں شامل ہے۔ جسے اب قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہوٹل اب ملبے کا ڈھیر ہے۔ ہوٹل کے ترجمان امتیاز مغل کا شکوہ بھی یہی ہے کہ جب ہوٹل ٹھیک تھا تو قومی ورثے میں نہیں لیا گیا اب توڑ پھوڑ کے بعد میدان بن گیا ہے تو اسے قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی ہوٹل کے سامنے لوٹیا بلڈنگ ہے۔ جو پرائیوٹ پراپرٹی ہے۔ اس سے چند قدم آگے سندھ کلب کی عمارت ہے۔ جہاں انگریز دور میں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں کتوں اور کالے آدمیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں کراچی میں سب سے پہلے بجلی لائی گئی تھی۔ اس سے آگے فریئر ہال ہے۔