سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 31 اگست، 2017
پاکستان کے ادارۂ شماریات نے پاکستان میں 19 سال بعد رواں سال 15 مارچ سے 24 مئی 2017تک ہونے والی چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتایج جمعہ 25 اگست 2017 کو جاری کیے ہیں، جس کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار پانچ سو 20 افراد پرمشتمل ہے۔ ادارۂ برائے شماریات کی جانب سے جاری سمری کے مطابق سن 1998 کے بعد پاکستان کی آبادی میں سالانہ2.40 فیصد اضافہ ہوا، پنجاب اور سندھ میں آبادی بڑھنے کی شرح میں کمی آئی ہے جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 19سال میں مجموئی طور پر پاکستان کی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔ ادارۂ شماریات کے مطابق سب سے زیادہ آبادی صوبہ پنجاب کی ہے جو ملکی آبادی کا نصف سے زائد ہے، پنجاب میں بسنے والے افراد کی تعداد 11 کروڑ 12 ہزار 442 ہے، 1998 میں لاہور کی آبادی 51 لاکھ 43 ہزار 495 تھی جو اب 2116.3 فیصد اضافے کے بعد ایک کروڑ 11 لاکھ 26 ہزار 285 ہو چکی ہے۔ دوسرئے نمبر پر صوبہ سندھ کی مجموعی آبادی 4 کروڑ، 78 لاکھ، 86 ہزار، 51 ہے، اس صوبہ کی 52 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑئے شہر کراچی کی آبادی 1998 میں 93 لاکھ39 ہزار 23 تھی اب 59.66 فیصد اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار 352 ہو چکی ہے۔
کراچی میں تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی، جماعت اسلامی اور جمیعت علما اسلام کا مردم شماری کے حوالے سے کوئی متحرک کردارنہیں ہے۔ایم کیو ایم (پاکستان)، بعض قوم پرست جماعتیں اور عوامی نیشنل پارٹی سرگرم تھے۔ جبکہ نتایج آنے کے بعدپیپلزپارٹی، ایم کیوایم (پاکستان)، پاک سرزمین پارٹی، ایم کیوایم (لندن)، نے مردم شماری 2017ءکے نتائج پر تحفظات کا اظہارکردیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے مطابق مردم شماری درست طریقے سے نہیں ہوئی‘ خانہ پری کرکے جان چھڑائی گئی ہے۔ سندھ کے غلط اعداد و شمارجاری کیے گئے ہیں جن کے نہایت منفی اثرات ہوں گے۔ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کے حوالے سے جاری کیے گئےاعداد و شمار مردم شماری کے عملے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،کم آبادی ظاہر کرکے کراچی کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جسے عوام کسی طور قبول نہیں کریں گے ۔ مردم شماری نقائص اور اغلاط کا مجموعہ ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے سربراہ فارو ق ستار کا کہنا تھا کہ پہلے ایم کیوایم کے 140کارکنان لاپتہ تھے اب مردم شماری کے نتیجے میں سندھ کے شہروں سے ایک کروڑ چالیس لاکھ شہریوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے،ہمارے ساتھ ایک بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔
ادارۂ شماریات کے نتایج آنے کے صرف تھوڑی دیر بعد ہی کراچی کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر کراچی کی آبادی کے حوالے سے سوال اٹھانے شروع کردیے۔ کراچی کے لوگوں کا کہنا تھا کہ جس شہر میں آبادی کا دباؤ رہا ہے ، پورے ملک سے آبادی منتقل ہورہی ہے اس کی آبادی میں گذشتہ 17 برس میں صرف 60 فیصد اضافہ دکھایاجارہا ہے جو منطقی اور علمی طور پرممکن نہیں ہے۔ اخبارات کے مطابق گذشتہ دہائی میں کراچی کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ دو سال قبل ایک اسٹڈی ہوئی تھی اس وقت آبادی کا اندازہ ایک کروڑ 60 لاکھ لگایا گیا تھا اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک اسٹڈی ہے اس میں بھی یہ ہی اعداد و شمار سامنے آئے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کےصوبائی جنرل سیکریٹری یونس بونیری کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی جتنی دکھائی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ لاہور کی آبادی حقیقی طور پر اتنا اضافہ ہوا ہے۔کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں کثیرمنزلہ عمارتیں موجود ہیں جبکہ لاہور میں عام طور پر چار منزلہ عمارتیں ہیں، اس کے علاوہ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں کراچی میں ہیں اور رقبے کے لحاظ سے بھی کراچی اور لاہور میں بہت بڑا فرق ہے اس لیے آبادی میں فرق قریب کا نہیں بلکہ آدھے آدھے کا ہونا چاہیے۔
جیسے ہی کراچی کے لوگوں نے کراچی کی مردم شماری کے نتایج کے خلاف آواز اٹھائی ،کراچی کے تعصب میں گھلنے والے دانشوروں کو تکلیف شروع ہوگی۔ ان دانشوروں کوکراچی کے ساتھ جوظلم ہورہا ہے وہ نظر نہیں آتا، مرکز اور صوبائی حکومتیں صرف کراچی کو لوٹ رہے ہیں اور متعصب دانشور ان کی خدمت میں حاضر ہیں۔ یہ دانشور مضامین لکھ لکھ کر کراچی والوں کو سمجھارہے تھے کہ ادارۂ شماریات نے کراچی کےلیے جو نتایج دیے ہیں ان کو تسلیم کرلیں، کراچی سے دور رہنے والےان دانشوروں کی کراچی کے بارئے میں معلومات زیرو ہیں، مثلاً ایک صاحب کراچی اور حیدرآباد کا فاصلہ 300 کلو میٹر بتارہے تھے اور ساتھ ہی فرمارہے تھے کہ یہ کراچی کا سب سے قریبی شہر ہے جبکہ حب، ٹھٹہ، جنگ شاہی کراچی کے بہت ہی قریبی شہر ہیں۔موصوف نے اپنے مضمون کا عنوان ’’ کراچی اور لاہور کی آبادی کی جنگ‘‘ رکھا ہے۔ ان کے لیے جواب یہ ہے کہ کسی ایک کراچی والے نے یہ نہیں کہا کہ لاہور کا نتیجہ غلط ہے، صرف لاہور کے حوالے یہ ضرور کہا کہ جس حساب سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے اس ہی حساب سے کراچی کی آبادی بڑھی ہے لیکن حکومت نے دھاندلی کی ہے۔موصوف اگراس کیس کی تھوڑی سی اسٹیڈی کرلیتے تو بہتر ہوتا۔
دوسرئے صاحب جو انتہائی متعصب شخص ہیں ان کے مضمون کا عنوان ’’مردم شماری پر اعتراض کے بجائے تفکر کی ضرورت ہے‘‘،فرماتے ہیں کہ’’ کراچی اپنے سیاسی حالات اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے اب یہاں باہر سے آنے والوں کے لئے کوئی کشش نہیں رکھتا۔ گزشتہ دہائی میں کراچی سے باہرہجرت بھی کافی زیادہ ہوئی ہے جس سے اس شہر کی آبادی کے اضافے کی شرح میں زیادہ تیزی نہیں آئی۔ کراچی کی آبادی اور دئے جانے والے ٹیکس پر بہت بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں لوگ نہ ٹیکس پاکستان کے کسی دوسرے شہر سے زیادہ دیتے ہیں اور اور نہ ہی ایسا کوئی ریکارڈ ہے۔ بندرگاہ اور ملک کے مالیاتی مرکز ہونے کی وجہ سے اس کا ریونیو زیادہ ہے۔ اسی طرح آبادی یہاں کی بڑھ نہیں رہی جتنی دوسرے شہروں کی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجوہات میں یہاں امن و امان کا مسئلہ بھی ہے اور شہری سہولیات بھی جو ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ ان کے لیے جواب یہ ہے کہ ’’گذشتہ دھائی میں کراچی کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا تھا، یہ میں نہیں کہہ رہا اس کے گواہ اخبارات ہیں، کے پی کے میں اتنے پختون نہیں ہیں جتنے کراچی میں ہیں، آدھا سوات کراچی آچکا ہے‘‘۔ ایک مرتبہ جو کراچی آجاتا ہے وہ پھر واپس نہیں جاتا۔
اسی مضمون نگار نے ریفرنس کے طور پر ماہر معاشیات قیصر بنگالی کا ذکر بھی کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو بھی نتائج پر اعتراض ہے تو وہ ایک سینس بلاک کو لے اور اپنا سینس کرے اور اس کا موازانہ حکومت کے اعداد و شمار سے کرے اگر وہ ثابت کرلیں کہ اتنے گھروں کو شمار ہی نہیں کیا گیا تو پھر وہ ایک موثر اعتراض کرسکتے ہیں۔ قیصر بنگالی جو ماہر معاشیات ہیں ماہر شماریات بنکر فرمارہے تھے ’’مردم شماری بڑی چیز ہوتی ہے اس کو چیلنج نہیں کرسکتے کیونکہ اندازے اندازے ہی ہوتے ہیں‘‘۔مبشر علی زیدی قیصر بنگالی کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کچھ دانشور فرماتے ہیں کہ مردم شماری ٹیکنیکل کام ہے۔ یہ حساب کتاب کا کھیل ہے۔ عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ مطلب یہ کہ انھیں آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیا جائے گویا یہ اولیا کے جمع کیے ہوئے اعدادوشمار ہیں۔بھائی جان! پہلے سامعین کا اعتماد حاصل کریں، پھر قائل کرنے کے لیے دلائل پیش کریں۔ اگر سامعین کو آپ پر اعتماد ہی نہیں تو زمینی حقائق سنائیں یا آسمانی دلائل لائیں، کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ ہاں، اپنے ہم خیال لوگوں کی ہاں ہاں سن کر کوئی دانشور کہلانا چاہتا ہے تو مرضی جناب کی۔ننگا سچ یہ ہے کہ مردم شماری کرنے والوں کی نیت پر کسی کو بھروسا نہیں اس لیے نتائج بھی کسی کو قبول نہیں‘‘۔ سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ کراچی والوں کو کراچی کے مردم شماری کے نتایج قبول نہیں۔