کراچی کے لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا، مجھے ایم کیو ایم سے اختلاف رہتا ہے، لیکن یہ کراچی کی اکثریت کا فیصلہ ہے، جمہورت میں اکثریت ہی کا فیصلہ سب کا فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے میں لاکھ اختلاف کروں لیکن اگر مجھے جمہوری فیصلہ چاہیے تو پھر میرا ایم کیو ایم سے اختلاف کوئی حیثیت نہیں رکھتا، میں اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں۔سیاست کا میدان بہت بے رحم ہوتا ہے، اس میں فتح ہوتی ہے یا شکست ہوتی ہے۔ اخلاقی فتح اور اخلاقی شکست کے فضول چونچلے اور کھوکھلے نعرے دوسروں کو کم اور اپنے آپ کو زیادہ دھوکہ دینے کیلئے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا وطیرہ رہا ہے کہ 1970 سے لیکر آج تک ہونیوالے ہر الیکشن میں شکست کھانے کے بعد اخلاقی فتح کی لن ترانیاں شروع کر دیتی ہے۔ کون سا اخلاق اور کون سی فتح، شکستِ فاش کو جس مرضی لبادے میں چھپانے کی کوشش کریں وہ شکستِ فاش ہی ہوتی ہے۔ تحریکِ انصاف کا باوا بھی نرالا ہے، الیکشن مہم کے جلسے جلوسوں میں وہ خوب اودھم مچاتی ہے لیکن الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد ہونیوالی ہر شکست میں سے نیا پاکستان برآمد کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایم کیو ایم کو بھرپور مبارکباد دیں۔