محمد اظہر نذیر
محفلین
کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سُنتے ہیں کہ نفرت سے بنا زہر کراچی
سنتے ہیں کہ لوگوں میں محبت تھی خیالی
سنتے ہیں کہ اس شہر کی تھی ریت نرالی
سُنتے ہیں کہ اس شہر کی رونق تھی مثالی
کہتے ہیں خدا کا ہے بنا قہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سُنتے ہیں محبت ہی تھی ظاہر بھی نہاں بھی
سُنتے ہیں کہ سب خوش تھے یہاں بوڑھے جواں بھی
سُنتے ہیں یہی شہر تھا روشن بھی رواں بھی
کہتے ہیں وہی شہر ہے بے مہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سنتے ہیں جو آتے تھے، وہ توقیربناتے
سُنتے ہیں کماتے تھے وہ تقدیر بناتے
سُنتے ہیں حسیں شہر کی تصویر بناتے
کہتے ہیں بنی خون کی اب نہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سنتے ہیں کہ گلشن میں کھلا ورد کراچی
سُنتے ہیں کہ سانجھا تھا یہاں درد کراچی
سُنتے ہیں محافظ تھا یہاں فرد کراچی
کہتے ہیں تشدد کی ہے اک لہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی