کراچی ہائے کراچی


کراچی


کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سُنتے ہیں کہ نفرت سے بنا زہر کراچی

سنتے ہیں کہ لوگوں میں محبت تھی خیالی
سنتے ہیں کہ اس شہر کی تھی ریت نرالی
سُنتے ہیں کہ اس شہر کی رونق تھی مثالی
کہتے ہیں خدا کا ہے بنا قہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی

سُنتے ہیں محبت ہی تھی ظاہر بھی نہاں بھی
سُنتے ہیں کہ سب خوش تھے یہاں بوڑھے جواں بھی
سُنتے ہیں یہی شہر تھا روشن بھی رواں بھی
کہتے ہیں وہی شہر ہے بے مہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی

سنتے ہیں جو آتے تھے، وہ توقیربناتے

سُنتے ہیں کماتے تھے وہ تقدیر بناتے
سُنتے ہیں حسیں شہر کی تصویر بناتے
کہتے ہیں بنی خون کی اب نہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی

سنتے ہیں کہ گلشن میں کھلا ورد کراچی
سُنتے ہیں کہ سانجھا تھا یہاں درد کراچی
سُنتے ہیں محافظ تھا یہاں فرد کراچی
کہتے ہیں تشدد کی ہے اک لہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
 

الف عین

لائبریرین
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
سُنتے ہیں کہ نفرت سے بنا زہر کراچی
//شاید کہنا یہ چاہتے ہو کہ کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب، اور اب یہ حالت ہے کہ زہر سے بنا لگتا ہے/ لیکن بیانیہ سے یہ بات واضح نہیں ہوتی۔ یوں کر دو
اب لگتا ہے نفرت سے بنا زہر کراچی

سنتے ہیں کہ لوگوں میں محبت تھی خیالی
سنتے ہیں کہ اس شہر کی تھی ریت نرالی
سُنتے ہیں کہ اس شہر کی رونق تھی مثالی
کہتے ہیں خدا کا ہے بنا قہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
//ٹیپ کے مصرع میں وہ بات واضح نہیں ہوتی جو تم کہنا چاہتے ہو۔
سنتے ہیں اب اللہ کا ہے قہر کراچی

سُنتے ہیں محبت ہی تھی ظاہر بھی نہاں بھی
سُنتے ہیں کہ سب خوش تھے یہاں بوڑھے جواں بھی
سُنتے ہیں یہی شہر تھا روشن بھی رواں بھی
کہتے ہیں وہی شہر ہے بے مہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
// دوسرا مصرع یوں کر دو۔
سُنتے ہیں کہ خوش تھے یہاں بوڑھے بھی، جواں بھی
شہر رواں کیسے ہوتا ہے؟ یہ مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
چوتھا یوں کر دو۔
کہتے ہیں کہ اب شہر ہے بے مہر کراچی

سنتے ہیں جو آتے تھے، وہ توقیر بناتے
سُنتے ہیں کماتے تھے وہ تقدیر بناتے
سُنتے ہیں حسیں شہر کی تصویر بناتے
کہتے ہیں بنی خون کی اب نہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
یوں کہو تو بہتر ہے
سنتے ہیں جو آتے تھے، وہ توقیر بناتے
دھن جوڑتے تھے ،اور تھے تقدیر بناتے
اس شہرِ نگاراں کی وہ تصویر بناتے
کہتے ہیں بنی خون کی اب نہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی

سنتے ہیں کہ گلشن میں کھلا ورد کراچی
سُنتے ہیں کہ سانجھا تھا یہاں درد کراچی
سُنتے ہیں محافظ تھا یہاں فرد کراچی
کہتے ہیں تشدد کی ہے اک لہر کراچی
کہتے ہیں ہوا کرتا تھا اک شہر کراچی
// اس بند کے قوافی کیا ہیں؟ دو بار ’درد‘ آ رہا ہے۔ اور کیا اضافت کے ساتھ ہے۔ دردِ کراچی؟
اس بند پر پھر غور کرو
 
Top