فرخ منظور
لائبریرین
کربلا
کربلا، میں تو گنہگار ہوں لیکن وہ لوگ
جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی
جسم سے، روح سے، احساس سے عاری کیوں ہیں
اِن کی مسمار جبیں، ان کے شکستہ تیور
گردشِ حسنِ شب و روز پہ بھاری کیوں ہیں
تیری قبروں کے مجاور، ترے منبر کے خطیب
فلس و دینار و توجّہ کے بھکاری کیوں ہیں؟
روضۂ شاہِ شہیداں پہ اک انبوہِ عظیم
بل ائیر اور کرسلر کے نئے ماڈل کو
اُسی خاموش عقیدت سے تکا کرتا ہے
جس کو کہہ دوں تو کئی لوگ برا مانیں گے
دل کو تہذیبِ تمنّا میں خدا ملتا ہے
جنبشِ یک لبِ عیسےٰ میں خدا ملتا ہے
شورِ ناقوس و نظارا میں خدا ملتا ہے
سنگِ محرابِ کلیسا میں خدا ملتا ہے
تیرے دیوانوں کو اے شاہدِ دریائے فرات
اپنی بے مائیگیِ ذہن میں کیا ملتا ہے؟
جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی
جسم سے، روح سے، احساس سے عاری کیوں ہیں
اِن کی مسمار جبیں، ان کے شکستہ تیور
گردشِ حسنِ شب و روز پہ بھاری کیوں ہیں
تیری قبروں کے مجاور، ترے منبر کے خطیب
فلس و دینار و توجّہ کے بھکاری کیوں ہیں؟
روضۂ شاہِ شہیداں پہ اک انبوہِ عظیم
بل ائیر اور کرسلر کے نئے ماڈل کو
اُسی خاموش عقیدت سے تکا کرتا ہے
جس کو کہہ دوں تو کئی لوگ برا مانیں گے
غیر تو رمزِ غمِ کون و مکاں تک پہنچے
کربلا تیرے یہ غم خوار کہاں تک پہنچے؟دل کو تہذیبِ تمنّا میں خدا ملتا ہے
جنبشِ یک لبِ عیسےٰ میں خدا ملتا ہے
شورِ ناقوس و نظارا میں خدا ملتا ہے
سنگِ محرابِ کلیسا میں خدا ملتا ہے
تیرے دیوانوں کو اے شاہدِ دریائے فرات
اپنی بے مائیگیِ ذہن میں کیا ملتا ہے؟
(مصطفیٰ زیدی از شہرِ آذر)