کرتا نہیں ہے ہم کو گوارا کوئی یہاں

عظیم

محفلین


کرتا نہیں ہے ہم کو گوارا کوئی یہاں
ڈھونڈے نہ مل سکے گا ہمارا کوئی یہاں

ہو جائیں ہم عزیز سبھی کے دِلوں کو اب
ہوتا نہیں ہمارا جو پیارا کوئی یہاں

کہہ دوں جو دل کا حال زبانیں ہوں سب کی بند
کھولے نہ اپنے منہ کو دوبارہ کوئی یہاں

تنتے ہو ذات پات پہ کس واسطے سے، کیا
باقی بچا سکندر و دارا کوئی ، یہاں !

خود ہی اٹھائے پھرتے رہو اپنے آپ کو
دیتا نہیں کسی کو سہارا کوئی یہاں

ہر اِک مقام پر ہیں ترے حُسن کے شکار
چِیرا کوئی وہاں پہ تو مارا کوئی یہاں

آنسو گِرا ہے میرا زمیں پر، نہیں عظیم !
ٹوٹا ہے آسماں سے ستارہ کوئی یہاں


*****


 
Top