کرتا ہوں برقِ قہر کا خوگر جگر کو میں- رسا

کاشفی

محفلین
غزل
(رسا)
کرتا ہوں برقِ قہر کا خوگر ،جگر کو میں
چھُپ چھُپ کے دیکھتا ہوں ،کسی کی نظر کو میں
کردے اگر گداز اسے ،گرمیء سجود
کرلوں جبیں میں جذب ، ترے سنگِ در کو میں
اُن کو یہ ڈر، نہ آئے کہیں آستاں پہ حرف
مجھ کو یہ ضد کہ رکھ کے اُٹھاؤں نہ سر کو میں
اللہ! اپنی نعمتِ اعظمٰی کو پھیر لے
ذوقِ نظر نہیں تو کروں کیا نظر کو میں
پَو پھوٹنے سے پہلے ہی دل جَل بُجھا مرا
کیا مُنہ دکھاؤں آج نسیم ِ سحر کو میں
کٹتی نہیں ہے راہِ مصیبت کسی طرح
جنجر ملے تو ختم کروں اِس سفر کو میں
آنکھوں میں کھچ کے آگیا سب حسرتوں کا خون
کہیئے تو اب دکھاؤں نظر کے اثر کو میں
لو صحبتِ شبانہ کی لذّت بھی مِٹ چکی
حسرت سے دیکھتا ہوں چراغِ سحر کو میں
چھوڑے تھے جس کی آس پہ دونوں جہاں رسا
پوچھے وہی نہ بات تو جاؤں کِدھر کو میں
 
Top