literature
محفلین
کرتے ہو گلی کوچوں کو تاریک بھی خود ہی
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آجاتی ہے پھر سوچ میں تشکیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹھیک بھی خود ہی
ہوتا ہے وہ بیدار تو رہتا ہے کشیدہ
خوابوں میں چلا آتا ہے نزدیک بھی خود ہی
آنکھیں ہوں کھلی اور ہو احساس بھی زندہ
ہوجاتی ہے پھر شعر کی تحریک بھی خودہی
اک لفظ کی تعریف سے پتھر کو کیا موم
حل کر ہی لیا نکتئہ باریک بھی خود ہی
نازک سی کوئی بات کرو گے تو یہاں پر
بن جائو گے تم مرکزِ تضیک بھی خود ہی
اسلاف کا ورثہ ہے سخن گوئی جو ہم تک
بس ہوتا چلا آیا ہے تملیک بھی خود ہی
مرتضٰی برلاس
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آجاتی ہے پھر سوچ میں تشکیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹھیک بھی خود ہی
ہوتا ہے وہ بیدار تو رہتا ہے کشیدہ
خوابوں میں چلا آتا ہے نزدیک بھی خود ہی
آنکھیں ہوں کھلی اور ہو احساس بھی زندہ
ہوجاتی ہے پھر شعر کی تحریک بھی خودہی
اک لفظ کی تعریف سے پتھر کو کیا موم
حل کر ہی لیا نکتئہ باریک بھی خود ہی
نازک سی کوئی بات کرو گے تو یہاں پر
بن جائو گے تم مرکزِ تضیک بھی خود ہی
اسلاف کا ورثہ ہے سخن گوئی جو ہم تک
بس ہوتا چلا آیا ہے تملیک بھی خود ہی
مرتضٰی برلاس