با ادب
محفلین
انسانی زندگی کو سمجھنا مشکل کام ھے اور انسانوں کی نفسیات سمجھنا اس سے بھی مشکل ۔۔۔۔ ہر انسان نہ تو مکمل برا ہوتا ہے نا ہی مکمل اچھا ۔۔۔ بس اپنی زندگی کے کچھ پہلوؤں میں وہ مختلف کردار نبھاتا ہے ۔۔ اور ضروری نہیں کہ ہر کردار شاہکار قرار پائے ۔۔ کچھ کرداروں میں شخصیت کی کہانی سپر ھٹ قرار پاتی ہے کہیں وہی کردار فلاپ قرار پاتے ہیں ۔۔۔ یہ ہر گز ضروری نہیں کہ انسان ہر کردار کا ہیرو ہو ۔۔۔ کہیں وہ ولن بھی قرار پاتا ھے کہیں وہ ھیرو ٹہرتا ھے ۔۔۔
ابا محترم ہمارے بچپن میں غیر نصابی کتب پڑھنے کے مخالف تھے لیکن وہی ابا حضور تھے جنہوں نے قبائلی نظام کی مخالفت مول لے کے بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔۔۔۔ جس علاقے کی بچیوں نے سکول کا منہ تک نہ دیکھا تھا اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ابا جی کی اپنی بیٹیاں یونیورسٹی لیول تک پڑھتی رہیں ۔ بچیوں کو ڈاکٹر وکیل بنا کے ابا جی نے مثال قائم کی ۔ نہ صرف یہ کہ بچیوں کو تعلیم دلوائی گئی بلکہ انھیں اتنا دبنگ بنایا کہ جس علاقے کے فیصلے عدالتوں میں نہ ہوتے جہاں انصاف جرگے میں ایسے ملا کرتا جس کے حمائتی زیادہ ہوتے یا طاقت میں ہوتے ۔ اسی علاقے میں ابا جی نے بیٹی کے ہاتھ میں جرگے کی بھاگ ڈور تھما ڈالی ۔۔۔
“ فلاں ہماری بیٹی کہ بھگا لے گیا ہے ہم سوارہ (ونی) لیں گے ۔۔۔ اور اس فیصلے کا اختیار ابا جی بیٹی کو تھماتے ہیں ۔ قانون پڑھا ہے کرو فیصلہ ۔۔۔۔۔ ہم عورت کے فیصلے کو نہیں مانتے ۔۔۔۔۔ تم اس ملک کے باشندے ہو جس پہ عورت ہی کی حکمرانی رہی ہے ۔۔۔۔۔ تمھیں اس عورت سے بات گوارہ نہیں جو ذہین ہو صاحب الرائے ہو تم سے بہتر صلاحیتوں کی مالک ہو ۔۔ لیکن جو عورتیں تم سے لٹک چٹک کے بات کریں تمھارے گناہ کو ثواب جانیں ان عورتوں سے بات کرنا تمھاری مردانگی ہے ۔۔۔۔ میں اس جرگے کا سر پنچ ۔۔۔ میری جانشین میری بیٹی ۔۔۔ اب جواس کا فیصلہ وہی ہمارا ۔۔۔۔۔۔
یہ اسی باپ کی آواز ہے جسے لڑکیوں کا شعر و شاعری پڑھنا پسند نہیں ۔۔۔ اس لیئے کہ اسے اپنی بچیوں کو وہ آہنی فولاد بنانا تھا کہ ان سے ٹکرانے سے پہلے کوئی سو بار سوچے ضرور اور انھوں نے یہ کر دکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان بچیوں کے والد محترم انتہائی سخت گیر اور رعب داب والے ضرور ہیں لیکن انھوں نے ان بچیوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔۔۔۔
انھیں اپنے گھر میں عامین کی ضرورت نہیں تھی انھیں وہ خواص چاہیے تھے جو دیدہ بینا رکھتے تھے ۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پلنے والی وہ بچیاں ہیں جنھیں اپنے حق کے لیئے لڑنا آتا ہے ۔۔۔ بس یہ لڑائی والد محترم سے کبھی اس لیے نہیں لڑی کہ انھیں اپنے بابا سے بہت پیار ہے ۔ ان کی قربانیوں کی بہت قدر ہے ۔
زندگی کی اسٹیج پہ بابا ہمارے ہیرو ہیں کہ بابا نے ہمیں اصول سکھایا “ زندگی” میں کبھی سمجھوتے کی چادر اوڑھ کر اپنے خواب مت چھوڑنا ہمیشہ اعلیٰ کے حصول کی تگ و دو کرنا اگر کامیاب ہوگئے تو تم پہ تاریخ لکھی جائے گی لیکن اگر ناکام ہوئے تو بھی یاد رکھنا شاہین مردار نہیں کھاتا ۔۔۔ اپنی پرواز بلند رکھنا پر تھک گئے اور تم گر پڑے تو وہ ہار نہیں جیت ہی ہے ۔۔ کوشش تم کرو نتایج اللہ پہ چھوڑ دو ”
زندگی کی اسٹیج پہ بابا ہمارے ولن ہیں ۔۔ جنھوں نے سونے کا نوالہ دے کہ ہمیں شیر کی نظر سے گھورا ہے ۔ جنھوں نے ہر مشکل میں ہمیں صاف جواب دیا اپنی لڑائی خود لڑو ۔۔ بابا ہم آپ کی بیٹیاں ہیں ساری دنیا کے والد انکی لڑائیاں لڑتے ہیں ۔۔ میں ساری دنیا کا باپ نہیں اور مجھے کمزور اور کم ہمت اولاد کی ضرورت نہیں ۔۔۔
بچپن میں وہ سب کام جو ہم بابا سے چھپ کے کرتے بڑے ہونے پہ علی الاعلان کرتے اور حیرت زدہ ہوتے بابا غصہ کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ معاملات اس نہج پہ بھی پہنچے کہ ہم نے ہر بات والد سے شئیر کی ان سے مخلفت بھی کی ۔( اس مخالفت کو عام اختلاف اس لیئے نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک عام والد کی بات نہیں یہ اس والد کی بات ہے جس سے بات کرنے سے پہلے بڑے بڑے جوانوں کو دو دفعہ سوچنا پڑتا ) انکی مخالفت بھی سہی لیکن جان گئے کہ آج اگر ہم کسی بڑے سے بڑے فورم پہ بات کرنے کی اپنی رائے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ۔۔ آج اگر کسی بھی مصیبت یا پریشانی میں رو رو کے بابا کو فون کرنے کی بجائے ہم اس مسئلے کو خود حل کرنے کے بعد بابا کو فون ملا کے یہ بتاتے ہیں یہ واقعہ ہوا تھا اس طریقے سے ڈیل کر کے حل کر دیا ہے ۔ تو اس باپ کی عظمت کو سلام جس کی بیٹیوں کی سب سے بڑی سپورٹ آج بھی فقط بابا ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ سخت گیر باپ ہر بیرونی طاقت کے خلاف ان کے ساتھ آکھڑا ہوگا چاہے غلطی بیٹیوں کی ہی کیوں نہ ہو ۔
ایسے باپ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی بیٹیوں کو اللہ کے سوا دنیا کی کسی طاقت سے ڈر نہیں لگتا ۔۔
ابا محترم ہمارے بچپن میں غیر نصابی کتب پڑھنے کے مخالف تھے لیکن وہی ابا حضور تھے جنہوں نے قبائلی نظام کی مخالفت مول لے کے بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔۔۔۔ جس علاقے کی بچیوں نے سکول کا منہ تک نہ دیکھا تھا اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ابا جی کی اپنی بیٹیاں یونیورسٹی لیول تک پڑھتی رہیں ۔ بچیوں کو ڈاکٹر وکیل بنا کے ابا جی نے مثال قائم کی ۔ نہ صرف یہ کہ بچیوں کو تعلیم دلوائی گئی بلکہ انھیں اتنا دبنگ بنایا کہ جس علاقے کے فیصلے عدالتوں میں نہ ہوتے جہاں انصاف جرگے میں ایسے ملا کرتا جس کے حمائتی زیادہ ہوتے یا طاقت میں ہوتے ۔ اسی علاقے میں ابا جی نے بیٹی کے ہاتھ میں جرگے کی بھاگ ڈور تھما ڈالی ۔۔۔
“ فلاں ہماری بیٹی کہ بھگا لے گیا ہے ہم سوارہ (ونی) لیں گے ۔۔۔ اور اس فیصلے کا اختیار ابا جی بیٹی کو تھماتے ہیں ۔ قانون پڑھا ہے کرو فیصلہ ۔۔۔۔۔ ہم عورت کے فیصلے کو نہیں مانتے ۔۔۔۔۔ تم اس ملک کے باشندے ہو جس پہ عورت ہی کی حکمرانی رہی ہے ۔۔۔۔۔ تمھیں اس عورت سے بات گوارہ نہیں جو ذہین ہو صاحب الرائے ہو تم سے بہتر صلاحیتوں کی مالک ہو ۔۔ لیکن جو عورتیں تم سے لٹک چٹک کے بات کریں تمھارے گناہ کو ثواب جانیں ان عورتوں سے بات کرنا تمھاری مردانگی ہے ۔۔۔۔ میں اس جرگے کا سر پنچ ۔۔۔ میری جانشین میری بیٹی ۔۔۔ اب جواس کا فیصلہ وہی ہمارا ۔۔۔۔۔۔
یہ اسی باپ کی آواز ہے جسے لڑکیوں کا شعر و شاعری پڑھنا پسند نہیں ۔۔۔ اس لیئے کہ اسے اپنی بچیوں کو وہ آہنی فولاد بنانا تھا کہ ان سے ٹکرانے سے پہلے کوئی سو بار سوچے ضرور اور انھوں نے یہ کر دکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان بچیوں کے والد محترم انتہائی سخت گیر اور رعب داب والے ضرور ہیں لیکن انھوں نے ان بچیوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔۔۔۔
انھیں اپنے گھر میں عامین کی ضرورت نہیں تھی انھیں وہ خواص چاہیے تھے جو دیدہ بینا رکھتے تھے ۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پلنے والی وہ بچیاں ہیں جنھیں اپنے حق کے لیئے لڑنا آتا ہے ۔۔۔ بس یہ لڑائی والد محترم سے کبھی اس لیے نہیں لڑی کہ انھیں اپنے بابا سے بہت پیار ہے ۔ ان کی قربانیوں کی بہت قدر ہے ۔
زندگی کی اسٹیج پہ بابا ہمارے ہیرو ہیں کہ بابا نے ہمیں اصول سکھایا “ زندگی” میں کبھی سمجھوتے کی چادر اوڑھ کر اپنے خواب مت چھوڑنا ہمیشہ اعلیٰ کے حصول کی تگ و دو کرنا اگر کامیاب ہوگئے تو تم پہ تاریخ لکھی جائے گی لیکن اگر ناکام ہوئے تو بھی یاد رکھنا شاہین مردار نہیں کھاتا ۔۔۔ اپنی پرواز بلند رکھنا پر تھک گئے اور تم گر پڑے تو وہ ہار نہیں جیت ہی ہے ۔۔ کوشش تم کرو نتایج اللہ پہ چھوڑ دو ”
زندگی کی اسٹیج پہ بابا ہمارے ولن ہیں ۔۔ جنھوں نے سونے کا نوالہ دے کہ ہمیں شیر کی نظر سے گھورا ہے ۔ جنھوں نے ہر مشکل میں ہمیں صاف جواب دیا اپنی لڑائی خود لڑو ۔۔ بابا ہم آپ کی بیٹیاں ہیں ساری دنیا کے والد انکی لڑائیاں لڑتے ہیں ۔۔ میں ساری دنیا کا باپ نہیں اور مجھے کمزور اور کم ہمت اولاد کی ضرورت نہیں ۔۔۔
بچپن میں وہ سب کام جو ہم بابا سے چھپ کے کرتے بڑے ہونے پہ علی الاعلان کرتے اور حیرت زدہ ہوتے بابا غصہ کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ معاملات اس نہج پہ بھی پہنچے کہ ہم نے ہر بات والد سے شئیر کی ان سے مخلفت بھی کی ۔( اس مخالفت کو عام اختلاف اس لیئے نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک عام والد کی بات نہیں یہ اس والد کی بات ہے جس سے بات کرنے سے پہلے بڑے بڑے جوانوں کو دو دفعہ سوچنا پڑتا ) انکی مخالفت بھی سہی لیکن جان گئے کہ آج اگر ہم کسی بڑے سے بڑے فورم پہ بات کرنے کی اپنی رائے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ۔۔ آج اگر کسی بھی مصیبت یا پریشانی میں رو رو کے بابا کو فون کرنے کی بجائے ہم اس مسئلے کو خود حل کرنے کے بعد بابا کو فون ملا کے یہ بتاتے ہیں یہ واقعہ ہوا تھا اس طریقے سے ڈیل کر کے حل کر دیا ہے ۔ تو اس باپ کی عظمت کو سلام جس کی بیٹیوں کی سب سے بڑی سپورٹ آج بھی فقط بابا ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ سخت گیر باپ ہر بیرونی طاقت کے خلاف ان کے ساتھ آکھڑا ہوگا چاہے غلطی بیٹیوں کی ہی کیوں نہ ہو ۔
ایسے باپ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی بیٹیوں کو اللہ کے سوا دنیا کی کسی طاقت سے ڈر نہیں لگتا ۔۔