کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقص بسمل میں

راہب

محفلین
ترے جلوں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زبان رکھ دی

مٹی جاتی تھی بلبل جلوہ گل ہائے رنگیں پر
چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں !
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی

قفس کی یاد میں یہ اضطراب دل، معاذ اللہ !
کہ میں نے توڑ کر ایک ایک شاخ آشیاں رکھ دی

کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقص بسمل میں
بہت کچھ سوچ کرظالم نے تیغ خوں فشاں رکھ دی

الٰہی ! کیا کیا تو نے کہ عالم میں تلاطم ہے
غضب کی ایک مشت خاک زیر آسماں رکھ دی
 

الف عین

لائبریرین
مجھے خیال آ رہا ہے کہ ایک آدھ شعر اس کا میں نے کہیں سیماب اکبر آبادی کے نام سے پڑھا تھا کہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت غزل ہے - راہب آج کل تو آپ کمال کا کلام پوسٹ کر رہے ہیں - اگر شاعر کا نام بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا -
 
Top