کرشن بہاری نُور لکھنوی :::: زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں --- Noor Lakhnavi

طارق شاہ

محفلین


غزل
نُورلکھنوی

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جُھوٹ کی کوئی اِنتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں

زندگی! موت تیری منزل ہے
دُوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا ، کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور، سنسار سے گیا ہی نہیں

کرشن بہاری نُورلکھنوی
 
مطلع پڑھ کر وہ شعر یاد آیا کہ
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
عمدہ انتخاب ہے ۔
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں
واہ ۔۔کیا بات ہے ۔
 

طارق شاہ

محفلین
مطلع پڑھ کر وہ شعر یاد آیا کہ
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
عمدہ انتخاب ہے ۔
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں
واہ ۔۔کیا بات ہے ۔
تشکّر گیلانی صاحبہ
اظہار خیال اورانتخاب غزل کی پذیرائی پر
بہت خوش رہیں :)
 
Top