سید زبیر
محفلین
میں منظر ہوں ، پس منظر سے میرا رشتہ بہت
آخر میری پیشانی پر سورج چمکا بہت
جانے کون سے اسم انا کے ہم زندانی تھے
تیرے نام کو لے کر ہم نے خدا کو چاہا بہت
ان سے کیا رشتہ تھا وہ کیا میرے لگتے تھے
گرنے لگے جب پیڑ سے پتے تو میں رویا بہت
کیسی مسافت سامنے تھی اور سفر تھا کیسا لہو
میں نے اس کو اس نے مجھ کو مڑ کے دیکھا بہت
کس کے دست سوال میں ہے اک لمبی چپ کا چراغ
جھانکتا ہے کیوں اک کھڑکی سے کوئی چہرہ بہت
ہے دریا کے لمس پہ نازاں اک کاغذ کی ناؤ
سورج سے باتیں کرتا ہے ایک دریچہ بہت
ساری عمر کسی کی خاطر سولی پہ لٹکا رہا
شاید طور میرے اند اک شخص تھا زندہ بہت
کرشن کمار طور