کرفیو اور اہل کراچی
اہل کراچی اب کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء سے۔ اگر ہمارے پاکستانی بھائی تھوڑا عرصہ بھی مارشل لاء کی چھتری سے باہر گزار لیں تو ان کی طبعیت ناساز ہو جاتی ہے۔ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتے مارشل لاء کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے اگر حالات یہی رہے تو نئے مارشل لاء کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف سے تسلی دی جاتی ہے کہ نہیں فی الحال مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں۔ اور تیسرے ہی دن یہ اطلاع آتی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔
بات ہم کرفیو کی کر رہے تھے کہ یہ مارشل لاء نہ جانے کہاں سے ٹپک پرا۔ ویسے بھی مارشل لاء عموماً ٹپک ہی پڑتا ہے۔ یہ کبھی "تھرو پراپر چینل" نہیں آتا لہذا سطور بالا میں اس کے اس طرح ٹپک پڑنے کو اس کی عادٹ ثانیہ جانتے ہوئے ہم درگزر کرتے ہیں۔ اور اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہاں اب تو اہل کراچی کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے۔۔۔۔ ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہل کراچی کرفیو سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ اسے "معمولات" میں تصور کر کے اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ کرفیو تو پھر کرفیو ہے۔ کسی زمانے میں محض مارشل لاء کی بھی بڑی "قدر" ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں جب مارشل لاء نیا نیا آیا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو باہر گلی میں کھیلنے سے منع کرتے ہوئے کہتی تھیں بیٹے باہر مت جانا۔ مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ پھر جب یہی مائیں اور بچے مارشل لاء سے مانوس ہو گئے تو ایک مارشل لاء سے دوسرے مارشل لاء تک کے درمیاں وقفے میں مائیں بچوں بلکہ بڑوں تک سے کہنے لگیں ذرا دیکھ بھال کر باہر جانا اب مارشل لاء نہیں ہے نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔
قارئین کرام! آپ نے دیکھاہم تذکرہ مارشل لاء سے اپنے کالم کے دام کو جتنا بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اس تذکرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے ملک کو جتنا مارشل لاء سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی مارشل لاء سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مارشل لاء سے اور ہمارے کالم کو تذکرہ مارشل لاء کے اثرات بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ مگر اس سلسلہ میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ہم جس قدر کسی کو کسی چیز سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اسی قدر ہی اس چیز سے قریب ہونے کی سعی کرے گا۔ اس قسم کے ماہرین اپنے بیان کی وضاحت میں عموماً یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جہاں "تھوکنا منع ہے" لکھا ہوتا ہے ماسوائے تھوک کے اور کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر چلے جا رہے ہیں اور آپ کو یکایک ناگوار سی بو محسوس ہونے لگے تو سمجھ لیجیئے کہ یہیں کہیں آس پاس لکھا ہو گا ۔۔۔۔ کرنا منع ہے۔ نو پارکنگ کے بورڈ کے آس پاس گاڑیوں کا ہجوم نہیں تو چند گاڑیاں ضرور کھڑی ہوئی ملیں گی۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچ ہے کہ جہاں کسی گوشے میں چند گاڑیاں پارک نظر آئیں پولیس کے سپاہی وہاں نو پارکنگ کا پور ٹیبل بورڈ نصب کر کے گاڑیوں کے مالکان کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائے۔ ماضی کی ایک حکومت کے دور میں حزب اختلاف کے ایک رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسمبلی کی بلڈنگ پہنچے تو ان کی نسبتاً پرانی گاڑی کا سیکورٹی کے عملے نے شایان شان اور پرتپاک خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بیان داغ دیا کہ ان جیسے غریب ارکان اسمبلی کا سرکاری کارندے مناسب طور پر استقبال نہیں کرتے۔ لہذا وہ کل احتجاجاً گدھا گاڑی پر سوار ہو کر اسمبلی ہال پہنچیں گے۔ چنانچہ موصوف اگلے روز بدست خود گدھا گاڑی "ڈرائیو" کرتے ہوئے اسمبلی پہنچے۔ سیکورٹی کے عملے نے احتیاطاً ان کے ساتھ کسی کا کوئی سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے قریب ہی ایک پول سے گدھا گاڑی کو باندھا اور اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اندر چلے گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے جس "پول" سے گدھا گاڑی کو باندھا تھا وہ دراصل "نو پارکنگ" کا بورڈ تھا اور اس منظر کو ہمارے تمام قومی اخبارات نے اپنے صفحے کی زینت بنایا تھا۔
ابھی ابھی آپ یہ پڑھ رہے تھے کہ جب مذکورہ رکن اسمبلی کو ان کی منشاء کے مطابق "ٹریٹ" نہیں کیا گیا تو انہوں نے جھٹ ایک بیان داغ دیا کہ "غریب ارکان اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے"۔ اسی بیان پو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ آپ اسے لطیفہ سمجھتے ہوئے سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ایک سماجی کارکن کو بیان سینے کا بہت شوق تھا۔ انہیں روزانہ کے معمولات میں جو بھی پریشانی ہوتی وہ اسے عوام کی پریشانی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بیان داغ دیتے۔ علاوہ ازیں متعلقہ احکام کو بھی ٹیلی فون کر دیتے کہ صاحب آپ فوراً اس مسلہ کو حل کروائیں' عوام بہت پریشان ہیں۔ یہ آخری جمہ تو ان کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی بیگم شاپنگ کرنے گئیں تو ان کئ واپسی سے قبل کرفیو لگ گا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ سکیں۔ موصوف نے شام تک ہر ممکن جگہ انہیں تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنے علاقے کے تھانیدار کو ٹیلی فون کیا کہ صاحب! میری بیوی صبح شاپنگ کرنے گئی تھی۔ ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ آپ فوراَ ان کی تلاش کے لیے سپاہی بھیجیں' عوام بہت پریشان ہے۔
موصوف کی بیگم تو کرفیو میں گم ہو گئی تھیں مگر ان کے دوران کرفیو گم ہونے کے تذکرے پر ہمیں ہمارا گم شدہ موضوع "کرفیو" مل گیا ہے۔ اگر آپ کی یاداشت قابل اعتبار ہے تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کرفیو سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر الفاظ و واقعات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہو گئے کہ اپنا موضوع تک گم کر بیٹھے جو ابھی ابھی ملا ہے۔ سو ہم تانے سے بانا ملاتے ہوئے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اہل کراچی کرفیو سے اسی چرح مانوس ہو چکے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء سے۔ مارشل لاء کے ذکر پر ہم نے کہا تھا کہ ہم جتنا اس ذکر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں یہ اتنا ہی ہم سے چمٹ جاتا ہے۔ کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔۔ اور ماہرین نفسیات کے بیان کے ثبوت میں جب ہم گدھا گاڑی کی ڈرائیونگ اور پارکنگ والے مقام تک پہنچے تو ہمیں ایک سماجی کارکن کا واقعہ یاد آگیا جن کی بیوی دوران کرفیو گم ہو جاتی ہیں۔ اور اسی گمشدگی کے نتیجے میں ہمیں ہمارا گمشدہ موضوع "کرفیو" ابھی ابھی ملا ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں اصل موضوع پر لکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟