محمد بلال افتخار خان
محفلین
اللہ مغفرت فرمائے کرنل نواب دین چوہدی کی۔۔ بہت نفیس انسان تھے۔۔۔ ان سے پہلی ملاقات گیریزن اکیڈمی میں ہوئی۔۔۔ میں اس وقت کاس نہم کا طالب العلم تھا۔۔
کرنل صاحب فوج کی ایجوکیشن کور سے ریٹائیر ہوئے۔۔۔ اور پھر ایجوکیشن سیکٹر میں ہی نوکری اختیار کر لی۔۔۔ کرنل صاحب بلا شبہ صاحب علم انسان تھے جو گو پڑھاتے تو حساب تھے لیکن فلسفہ، مزہب اور دیگر سائینسی اور معاشرتی علوم میں بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔
کرنل این ڈی صاحب کی سانولی رنگت اس پر ٹو پیس سوٹ اور آنکھوں پر آرنڈ شوازنیگر جیسی کالی عینک۔۔۔ انتحائی ڈسپلنڈ شخصیت اور فوجی کیڈیٹس جیسی چال۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ شرارتی طالب العلمون نے ان کو روبوکاپ کا نام دے ڈالا۔
میٹرک کے بعد سکول سے رابطہ کٹ گیا۔۔۔ ایف ایس سی کے بعد فوج میں دو بار قسمت آزمائی لیکن یہی بتایا گیا کہ سیدھی جرنیلی نہیں ملے گی۔۔۔ ہمیں جرنیلی چاہئے تھی۔۔۔ سو فوج سے اسی رٹ کی وجہ سے دو بار ناٹ ریکیمنڈ ہوئے۔۔
آئی ایس ایس بی سے دوسری بار ناٹ ریکیمنڈ ہونے کے بعد احساس ہوا کے آگے کے لئے کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔ سو رنجیدہ رنجیدہ گیریزن کالج کی راہ لی۔۔۔ گیریزن کا لج میں پہلا ٹاکرا سر کرنل نواب دین یا کرنل این ڈی چوہدری صاحب سے ہی ہوا۔۔۔ اس بار فرق یہ تھا کہ کچھ کچھ عقل،لا ابالی طبیعت پر غالب آنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ سو خوشی ہوئی کے سیکھنے کا موقع ملے گا۔۔۔
کرنل این ڈی چوہدری انتحائی نفیس انسان تھے۔۔۔ کم گو، ٹودا پوائینٹ بات کرنے والے۔۔ انتحائی ہمدرد اور مخلص انسان۔۔۔ جو ہم طالب العلمون میں گھل مل جاتے۔۔۔ جس طالب العلم کو کالج میں کوئی مسئلہ یا ضرورت ہوتی۔۔ کرنل صاحب کا دروازہ اسے کھلا ملتا اور وہ بے خوف اپنا مدعا بیان کرتا۔۔ اور کرنل صاحب اگر طالب العلم حق پر ہوتا تو اس کی فوراً مدد کرتے۔۔
اس زمانے میں ہر ہفتے دو ٹیوٹوریل پیریڈ ہوتے تھے۔۔ جس کا مقصد طالبعلموں میں چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا تھا۔۔۔
ایک ٹیوٹوریل میں کرنل صاحب،جو کالج کے وائیس پرنسپل بھی تھے۔۔۔ میری کلاس میں تشریف لے آئے۔۔۔ اور سب سے پچھلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔۔۔
ایک دوست اسلام کی عالمگیریت اور ہر مسئلے کا حل ہونے پر بات کر رہا تھا۔۔ جب خاموش ہوا توکرنل صاحب اٹھے اور فرمایا
بیٹا آپ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔۔۔ یہ وہی باتین ہیں جو ہم ہر جگہ کرتے اور سنتے ہیں۔۔۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟؟؟ کشمیر، بوسنیا۔۔۔ فلسطین۔۔۔ ہر جگہ مسلمان ہی تو مار کھا رہا ہے۔۔۔ کبھی آپ نے سوچا کیوں؟؟؟
اصل میں بات یہ ہے کہ ہم لوگ مسلم بائے ڈیفالٹ ہیں۔۔۔ بائے چوئیس نہیں۔۔ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، کچھ قرآن پڑھا نماز سیکھی، روزے رکھے اور مسلمان بن بیٹھے۔۔۔
بائے چویس ہوتے، تو اسلام کی روح ہم میں نظر آتی۔۔۔ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن اللہ کے بندون کے حقوق ادا نہیں کرتے۔۔نماز بھی ہم میں روز محشر، اپنے رب کے حضور حاضری کا احساس پیدا نہیں کر پاتی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کرتے ہیں لیکن اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوۃ الرسول پر عمل کرنے سے بھاگتے ہیں۔۔۔۔
سر این ڈی چوہدری کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجھتے ہیں۔۔
چند روز پتہ چلا کہ میرے انتحائی محترم استاد اور محسن وفات پا چکے ہیں۔۔۔ خود پر افسوس بھی ہوا کہ کتنا احسان فرموش ہوں کہ جن لوگوں کی محنت اور خلوص کی وجہ سے آج ایک مقام تک پہنچا۔۔۔ کالج چھوڑتے ہی ان سے رابطہ توڑ دیا۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق استاد کا مقام وہی ہے جو انسان کے والد کا ہوتا ہے۔۔۔ آج انکھ میں آنسو ہیں۔۔۔ ذہن میں یادین ہیں۔۔۔ دل میں تشکر ہے۔۔۔ میں آئی ایس ایس بی میں دوسری بار ناٹ ریکیمنڈ ہونے کے بعد ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔۔ یہ سر کے ساتھ سیشنز تھے جو میں اس کرب کی حالت سے نکلا۔۔۔
کرنل صاحب ایک مخلص اور عظیم استاد تھے۔۔۔آج جبکہ میں بیس کے عشرے سے نکل کر چالیس کے عشرےمیں پہنچ چکا ہوں میری شخصیت میں ان کا عکس اسی طرح موجود ہے جیسے کل تھا۔۔۔
اللہ سر نواب دین چوہدری کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔
آمین، ثم آمین
کرنل صاحب فوج کی ایجوکیشن کور سے ریٹائیر ہوئے۔۔۔ اور پھر ایجوکیشن سیکٹر میں ہی نوکری اختیار کر لی۔۔۔ کرنل صاحب بلا شبہ صاحب علم انسان تھے جو گو پڑھاتے تو حساب تھے لیکن فلسفہ، مزہب اور دیگر سائینسی اور معاشرتی علوم میں بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔
کرنل این ڈی صاحب کی سانولی رنگت اس پر ٹو پیس سوٹ اور آنکھوں پر آرنڈ شوازنیگر جیسی کالی عینک۔۔۔ انتحائی ڈسپلنڈ شخصیت اور فوجی کیڈیٹس جیسی چال۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ شرارتی طالب العلمون نے ان کو روبوکاپ کا نام دے ڈالا۔
میٹرک کے بعد سکول سے رابطہ کٹ گیا۔۔۔ ایف ایس سی کے بعد فوج میں دو بار قسمت آزمائی لیکن یہی بتایا گیا کہ سیدھی جرنیلی نہیں ملے گی۔۔۔ ہمیں جرنیلی چاہئے تھی۔۔۔ سو فوج سے اسی رٹ کی وجہ سے دو بار ناٹ ریکیمنڈ ہوئے۔۔
آئی ایس ایس بی سے دوسری بار ناٹ ریکیمنڈ ہونے کے بعد احساس ہوا کے آگے کے لئے کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔ سو رنجیدہ رنجیدہ گیریزن کالج کی راہ لی۔۔۔ گیریزن کا لج میں پہلا ٹاکرا سر کرنل نواب دین یا کرنل این ڈی چوہدری صاحب سے ہی ہوا۔۔۔ اس بار فرق یہ تھا کہ کچھ کچھ عقل،لا ابالی طبیعت پر غالب آنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ سو خوشی ہوئی کے سیکھنے کا موقع ملے گا۔۔۔
کرنل این ڈی چوہدری انتحائی نفیس انسان تھے۔۔۔ کم گو، ٹودا پوائینٹ بات کرنے والے۔۔ انتحائی ہمدرد اور مخلص انسان۔۔۔ جو ہم طالب العلمون میں گھل مل جاتے۔۔۔ جس طالب العلم کو کالج میں کوئی مسئلہ یا ضرورت ہوتی۔۔ کرنل صاحب کا دروازہ اسے کھلا ملتا اور وہ بے خوف اپنا مدعا بیان کرتا۔۔ اور کرنل صاحب اگر طالب العلم حق پر ہوتا تو اس کی فوراً مدد کرتے۔۔
اس زمانے میں ہر ہفتے دو ٹیوٹوریل پیریڈ ہوتے تھے۔۔ جس کا مقصد طالبعلموں میں چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا تھا۔۔۔
ایک ٹیوٹوریل میں کرنل صاحب،جو کالج کے وائیس پرنسپل بھی تھے۔۔۔ میری کلاس میں تشریف لے آئے۔۔۔ اور سب سے پچھلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔۔۔
ایک دوست اسلام کی عالمگیریت اور ہر مسئلے کا حل ہونے پر بات کر رہا تھا۔۔ جب خاموش ہوا توکرنل صاحب اٹھے اور فرمایا
بیٹا آپ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔۔۔ یہ وہی باتین ہیں جو ہم ہر جگہ کرتے اور سنتے ہیں۔۔۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟؟؟ کشمیر، بوسنیا۔۔۔ فلسطین۔۔۔ ہر جگہ مسلمان ہی تو مار کھا رہا ہے۔۔۔ کبھی آپ نے سوچا کیوں؟؟؟
اصل میں بات یہ ہے کہ ہم لوگ مسلم بائے ڈیفالٹ ہیں۔۔۔ بائے چوئیس نہیں۔۔ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، کچھ قرآن پڑھا نماز سیکھی، روزے رکھے اور مسلمان بن بیٹھے۔۔۔
بائے چویس ہوتے، تو اسلام کی روح ہم میں نظر آتی۔۔۔ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن اللہ کے بندون کے حقوق ادا نہیں کرتے۔۔نماز بھی ہم میں روز محشر، اپنے رب کے حضور حاضری کا احساس پیدا نہیں کر پاتی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کرتے ہیں لیکن اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوۃ الرسول پر عمل کرنے سے بھاگتے ہیں۔۔۔۔
سر این ڈی چوہدری کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجھتے ہیں۔۔
چند روز پتہ چلا کہ میرے انتحائی محترم استاد اور محسن وفات پا چکے ہیں۔۔۔ خود پر افسوس بھی ہوا کہ کتنا احسان فرموش ہوں کہ جن لوگوں کی محنت اور خلوص کی وجہ سے آج ایک مقام تک پہنچا۔۔۔ کالج چھوڑتے ہی ان سے رابطہ توڑ دیا۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق استاد کا مقام وہی ہے جو انسان کے والد کا ہوتا ہے۔۔۔ آج انکھ میں آنسو ہیں۔۔۔ ذہن میں یادین ہیں۔۔۔ دل میں تشکر ہے۔۔۔ میں آئی ایس ایس بی میں دوسری بار ناٹ ریکیمنڈ ہونے کے بعد ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔۔ یہ سر کے ساتھ سیشنز تھے جو میں اس کرب کی حالت سے نکلا۔۔۔
کرنل صاحب ایک مخلص اور عظیم استاد تھے۔۔۔آج جبکہ میں بیس کے عشرے سے نکل کر چالیس کے عشرےمیں پہنچ چکا ہوں میری شخصیت میں ان کا عکس اسی طرح موجود ہے جیسے کل تھا۔۔۔
اللہ سر نواب دین چوہدری کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔
آمین، ثم آمین