کرو وعدہ ۔ عاطف سیعد

عمر سیف

محفلین
کرو وعدہ !
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! میری آنکھوں میں رہنے کا​
میں کہتا ہوں سمندر سے مجھے یوں بھی محبت ہے​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! مجھے اپنا بناؤ گے​
میں کہتا ہوں یہاں قسمت پہ کس کا زور چلتا ہے​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! مرے خوابوں میں آؤ گے​
میں کہتا ہوں تمھیں مجھ سے بچھڑ کے نیند آئے گی ؟​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! سدا یوں خوش رہو گے تم​
میں کہتا ہوں کہ پھر تم عمر بھر ہو کے رہو میری​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! نہیں جاگو گے راتوں کو​
میں کہتا ہوں مری نیندوں میں پھر تم جاگتی کیوں ہو؟​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! کبھی کچھ نہ چھپاؤ گے​
میں کہتا ہوں یہ آنکھیں بھید سارے کھول دیتی ہیں​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! رہو گے تم نہیں تنہا​
میں کہتا ہوں مجھے اب کون اپنے ساتھ رکھے گا؟​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! ہمیشہ مجھ کو چاہو گے​
میں کہتا ہوں بتاؤ نا یہاں کل کس نے دیکھا ہے؟​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! کبھی لکھنا نہ چھوڑو گے​
میں کہتا ہوں بھلا میں سانس لینا چھوڑ سکتا ہوں​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! خیال اپنا رکھوگے تم​
میں کہتا ہوں کہ پہلے کیوں مری عادت بگاڑی تھی​
وہ کہتی ہے کرو وعدہ ! کبھی وعدہ نہ توڑو گے​
میں کہتا ہوں بھلا کیسے میں تم کو توڑ سکتا ہوں​
عاطف سعید
 

عمر سیف

محفلین
چند دن پہلے عاطف سعید کی شاعری کے دھاگے پہ انہیں یہاں بلانے کی بات ہو رہی تھی ۔۔ میں نے انہیں مدعو کیا تھا ۔ کل رات ان کا پروگرام ریڈیو آواز پہ سُن رکا تھا تو دعوت دوبارہ دی۔ اس گفتگو کو یہاں پیسٹ کر رہا ہوں۔







اب انتظار ہے کہ کب وہ محفل کو رونق بخشتے ہیں۔ :)
 
Top