مریم افتخار
محفلین
فارسی سیکھنے کا شوق عرصہ دراز سے دل میں اٹھکیلیاں کراتا رہا ، لیکن اپنی سستی وکاہلی کے سبب اسے عمل کا جامہ پہنانے سے ہنوز قاصر ہوں ۔
"کریما" سعدی شیرازی کی تصنیف ، فارسی پڑھنے کیلئے انتہائی ابتدائی کتاب ہے ، لیکن اس کے باوجود میں اسے کسی شرح کے بغیر پڑھنے سے قاصر ہی ہوں ، فارسی جاننے والوں سے مشور ہ کے بعد پہلے اسی کتاب سے آغاز کا ارادہ کیا ہے نجانے کب تک اس ارادے پر قائم رہتی ہوں ، بہرحال… آغاز تو اللہ اللہ کر کے ہو ہی چکا ۔
تو سوچا کیوں نہ حاصل مطالعہ محفل پر بھی شئیر کیا جائے کہ کسی اور کا بھلا ہو یا نہ ہو ہمیں اساتذہ کی آراء ضرور میسر آجائیں گی اور شاید اس بہانے ہی ا س کے مطالعہ میں باقاعدگی آجائے ۔
کریما کے مطالعہ کیلئے بنیادی انحصار اردو شرح " گوہر بے بہار " پر ہے اس کے علاوہ ایک دو اور تراجم بھی زیر مطالعہ ہیں ۔
بہ بخشائے : بمعنی رحم فرما ، بخشش کر ، بخشودن مصدر سے امر کا صیغہ ہے ۔
بر :بمعنی اوپر یا پر اور حال ما مرکب اضافی ہے یعنی مرکب ہے مضاف اور مضاف الیہ سے ، اردو محاورہ میں مضاف الیہ کا ترجمہ پہلے اور مضاف کا ترجمہ اس کے بعد کیا جاتا ہے اور اگر ان دونوں کے اول میں حرف جر ہو تو اس کا ترجمہ مضاف و مضاف الیہ کے ترجمہ کے بعد ہوتا ہے ، چنانچہ" برحال ما" کا ترجمہ ہوا " ہمارے حال پر" یا " میرے حال پر "
اس جگہ " ما" بمعنی "من " ہے اور اس کا استعمال درست ہے ۔
غیر از تو: بمعنی ٰ تیرے سوا
فریاد رس : اسم فاعل ترکیبی ہے بمعنیٰ فریاد کو پہنچنے والا۔
توئی : بمعنیٰ "تو ہی " ہے کیونکہ جب لفظ تو اور یائے خطابی دونوں ایک ہی جگہ آتے ہیں تو حصر اور تاکید کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔
عاصیاں : عاصی کی جمع بمعنیٰ گنہگاراں
" را" علامت اضافت ہے
خطا بخش : اسمِ فاعل ترکیبی ہے ، خطا سے مراد گناہ ، خطا بخش یعنی گناہ کا بخشنے والا ۔
و: عاطفہ بمعنی اور
بس: بمعنیٰ کفایت میکنی تو وحاجت ِ دیگرے نیست ، تو کافی ہے ۔
مارا: بمعنیٰ ہم کو ، مجھ کو
زراہ خطا: بمعنیٰ خطا کی راہ سے
در گذار : بمعنی معاف فرما۔اس میں لفظ "در " زائدہ ہے اور" گذار " گذاشتن سے امر کا صیغہ ہے ۔
و: بمعنی اور
صواب : راہ راست ، مقابل خطا
م: مفعولی بمعنی مجھ کو
نما : بمعنی دکھا ،نمودن سے امر کا صیغہ ہے ۔
"کریما" سعدی شیرازی کی تصنیف ، فارسی پڑھنے کیلئے انتہائی ابتدائی کتاب ہے ، لیکن اس کے باوجود میں اسے کسی شرح کے بغیر پڑھنے سے قاصر ہی ہوں ، فارسی جاننے والوں سے مشور ہ کے بعد پہلے اسی کتاب سے آغاز کا ارادہ کیا ہے نجانے کب تک اس ارادے پر قائم رہتی ہوں ، بہرحال… آغاز تو اللہ اللہ کر کے ہو ہی چکا ۔
تو سوچا کیوں نہ حاصل مطالعہ محفل پر بھی شئیر کیا جائے کہ کسی اور کا بھلا ہو یا نہ ہو ہمیں اساتذہ کی آراء ضرور میسر آجائیں گی اور شاید اس بہانے ہی ا س کے مطالعہ میں باقاعدگی آجائے ۔
کریما کے مطالعہ کیلئے بنیادی انحصار اردو شرح " گوہر بے بہار " پر ہے اس کے علاوہ ایک دو اور تراجم بھی زیر مطالعہ ہیں ۔
در حمد باری تعالیٰ
کریما بہ بخشائے پر حال ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا
کہ ہستم اسیر کمند ہوا
اے کریم رحم کر میرے حال پر
کیونکہ میں ہوس کی کمند کا اسیر ہوں
کریما :میں لفظ کریم منادیٰ ہے اور اس کے آخر کا الف ندائیہ ہے ، اس الف کا ترجمہ منادیٰ سے پہلے کر لیا جاتا ہے جیسا کہ کریما کا ترجمہ اے کریمکیونکہ میں ہوس کی کمند کا اسیر ہوں
بہ بخشائے : بمعنی رحم فرما ، بخشش کر ، بخشودن مصدر سے امر کا صیغہ ہے ۔
بر :بمعنی اوپر یا پر اور حال ما مرکب اضافی ہے یعنی مرکب ہے مضاف اور مضاف الیہ سے ، اردو محاورہ میں مضاف الیہ کا ترجمہ پہلے اور مضاف کا ترجمہ اس کے بعد کیا جاتا ہے اور اگر ان دونوں کے اول میں حرف جر ہو تو اس کا ترجمہ مضاف و مضاف الیہ کے ترجمہ کے بعد ہوتا ہے ، چنانچہ" برحال ما" کا ترجمہ ہوا " ہمارے حال پر" یا " میرے حال پر "
اس جگہ " ما" بمعنی "من " ہے اور اس کا استعمال درست ہے ۔
نداریم غیر اَز تو فریاد رس
توئی عاصیاں را خطا بخش وبس
توئی عاصیاں را خطا بخش وبس
ہم تیرے سوا کوئی فریاد رس نہیں رکھتے
تو ہی ہے گنہگاروں کی خطا بخشنے والا اور بس
نداریم : جمع متکلم نفی مضارع معروف کا صیغہ ہے داشتن مصدر سے ۔تو ہی ہے گنہگاروں کی خطا بخشنے والا اور بس
غیر از تو: بمعنی ٰ تیرے سوا
فریاد رس : اسم فاعل ترکیبی ہے بمعنیٰ فریاد کو پہنچنے والا۔
توئی : بمعنیٰ "تو ہی " ہے کیونکہ جب لفظ تو اور یائے خطابی دونوں ایک ہی جگہ آتے ہیں تو حصر اور تاکید کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔
عاصیاں : عاصی کی جمع بمعنیٰ گنہگاراں
" را" علامت اضافت ہے
خطا بخش : اسمِ فاعل ترکیبی ہے ، خطا سے مراد گناہ ، خطا بخش یعنی گناہ کا بخشنے والا ۔
و: عاطفہ بمعنی اور
بس: بمعنیٰ کفایت میکنی تو وحاجت ِ دیگرے نیست ، تو کافی ہے ۔
نگہ دار ما را ز راہِ خطا
خطا درگذار و صوابم نما
خطا درگذار و صوابم نما
تو ہم کو خطا کی راہ سے محفوظ رکھ
خطا کو معاف کردے اور راہ راست مجھ کو دکھا
اس جگہ لفظ "نگہ " مفعول بہ ہے لفظ دار کا اور دار صیغہ واحد حاضر فعل امر ہے ۔ داشتن سے اور یہ نگہدار اسم فاعل ترکیبی نہیں ہے ۔ خطا کو معاف کردے اور راہ راست مجھ کو دکھا
مارا: بمعنیٰ ہم کو ، مجھ کو
زراہ خطا: بمعنیٰ خطا کی راہ سے
در گذار : بمعنی معاف فرما۔اس میں لفظ "در " زائدہ ہے اور" گذار " گذاشتن سے امر کا صیغہ ہے ۔
و: بمعنی اور
صواب : راہ راست ، مقابل خطا
م: مفعولی بمعنی مجھ کو
نما : بمعنی دکھا ،نمودن سے امر کا صیغہ ہے ۔
آخری تدوین: