:::::: کزنز کے ساتھ شادی بلا شک و شبہ جائز ہے :::::::

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی

اللہ تبارک وتعالیٰ کی سُنّت میں سے ہے کہ اللہ اپنے دِین کے خِلاف کام کرنے والوں کو مہلت دیتا ہے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ ہی کے دِین کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں ، اوراُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو کتاب و سُنّت کا جھنڈا اٹھائے ہوتے ہیں ، لیکن نہ کتاب اللہ کی موافقت رکھتے ہیں ، اور نہ ہی سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، اور اکثر ایسے ہوتے ہیں جو صِرف اللہ کی کتاب کا نام لے کر اُسی کتاب سے دُور لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ، اور اِس کوشش میں اُن کا سب سے بڑا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری تعلیمات ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ تعلیمات ہی اللہ کی کتاب کی درست اور یقینی شرح اور تفسیر ہیں ، اور ان کو چھوڑ کر کتاب اللہ کی معنوی تحریف بہت آسان ہے ، اس لیے یہ لوگ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری سُنّت مبارکہ پر ہی اعتراضات کرتے ہیں ، اور بسا اوقات اُس کا انکار ہی کر دیتے ہیں ،
اِن بہروپیوں کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کروا رکھی ہے ، اور بڑی ہی وضاحت سے کروا رکھی ہے ،
آیے آگے چلنے سے پہلے اُس خبر کا مطالعہ کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
رسول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ :::
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ‘‘‘ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنِ الْخَيْرِ ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِى :::لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے اور میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شرّ کے بارے میں سوال کیا کرتا ، اِس ڈر سے کہ کہیں وہ شرّ مجھے قابو نہ کرلے (اور میں اُسے جانتا سمجھتا ہی نہ ہوں )’’’،
پس میں نے سوال عرض کیا ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِى جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: اے اللہ کے رسول ، ہم لوگ جہالت اور شرّ میں تھے ، تو اللہ ہمارےپاس یہ (دِین اِسلام کی)خیر لے کر آیا ، تو کیا اِس خیر کے بعد بھی کوئی شرّہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ :::جی ہاں)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ ، وَفِيهِ دَخَنٌ :::جی ہاں،(خیر تو ہے، لیکن) اور اُس (خیر)میں دُھندلا پن ہے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَمَا دَخَنُهُ ؟::: اور اُس کا دھندلا پن کیا ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ::: (اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ جو میری(دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: تو کیا پھر اُس خیر کے بعد کوئی اور شرّ ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا ::: جی ہاں ، ایسے داعی (اِسلام کی تبلیغ کرنے والے)جو جہنم کے دروازوں پر (کھڑے) ہوں گے ، جو کوئی اُن کی(مان کر اُن کی) طرف جائے گا ، اُسے جہنم میں ڈبو دیں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا::: اے اللہ کے رسول ، ہمارے لیے اُن کی نشانیاں بیان فرما دیجیے ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا:::وہ لوگ ہماری جِلد (یعنی ہماری اُمت )میں سے ہوں گے، اور ہماری ہی زبانوں میں بات کرتے ہوں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَمَا تَأْمُرُنِى إِنْ أَدْرَكَنِى ذَلِكَ ؟::: اگر مجھے یہ کچھ ملے تو آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟::: اور اگر مُسلمانوں کی کوئی جماعت بھی ہو ، اور نہ ہی کوئی اِمام ہو تو ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
صحیح بخاری شریف/حدیث /3606کتاب المناقب/باب 25،،،
صحیح بخاری شریف /حدیث /7084کتاب الفتن/باب11،،،
صحیح مسلم شریف/حدیث/4890کتاب الإِمارۃ/باب 13،،،
صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں جو کہ مزید وضاحت کرنے والے اور فیصلہ کن ہیں کہ (((((قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِی وَ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ :::(اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ (ہوں گے)جو میری سُنّت کے علاوہ سُنتیں اپنائیں گے ، اور میری (دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
::::::: ایک خاص نکتہ :::::: خیال رہے کہ اِس حدیث شریف میں سے کسی ایک خاص جماعت ، اور جماعت سازی کی کوئی دلیل نہیں ، اس کے بارے میں بات الگ موضوع ہے ، اِس لیے اس کو یہاں شامل نہیں کر رہا ہوں۔
حدیث شریف میں بیان شدہ یہ بہروپیے جو کہ اِسلام کی جِلد میں ہیں ، ہم مسلمانوں کی ہی صِفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، اور ہم مسلمانوں کی ہی زبانوں میں بات کرتے ہیں ، یعنی دِین ، اِسلام ، قران اور اِیمان کا نام لے لے کر بات کرتے ہیں ، لیکن اِن کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو مذکور بالا حدیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیان کروائی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی سُنّت کے مطابق اپنے اِیمان والے بندوں میں سے کچھ بندوں سے اُن بہروپیوں کا اصل روپ دِکھانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جسے اللہ اپنے دِین کی کسی خدمت کے لیے استعمال کرے وہ محض اللہ کا ہی کرم ہوتا ہے نہ کہ اُس بندے کا کوئی کمال ،
ہم اپنے اس دور میں ، اور اپنے اس دور میں بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے پبلک میڈیا ، انٹر نیٹ پر بھی ایسے لوگوں کی کاروائیاں دیکھتے رہتے ہیں ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب کریم قران حکیم کا نام لیتے ہیں ، اور اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کی کوشش کے لیے اُس کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہیں ،
اور آیات کریمہ کے کچھ ایسے مفاہیم سامنے لاتے ہیں جو قران کریم کے نزول سے لے کر اِن لوگوں کے مذھب کے ظہور تک کسی نے بھی ظاہر نہیں کیے ، کیونکہ اُن آیات مبارکہ کے وہ مفاہیم جو یہ لوگ پیش کرتے ہیں ہی نہیں ،
ان ہی لوگوں میں سے کچھ کے ساتھ بہت سے موضوعات پر میری کافی عرصہ تک بات چیت ہوتی رہی ،جس کے آغاز میں ، میں ان لوگوں کو ایک مسلمان بھائی کے لیے واجب الادا ء احترام کے ساتھ پیش آتا رہا ، لیکن جب ان لوگوں کی طرف سے اُمت کے تمام ہی أئمہ اور علماء پر طعن اور الزام تراشیاں ہوتی ہی رہی ،اور بڑھتے بڑھتے وہ لوگ ایسی باتیں کرنے لگے جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ جلّ و علا تک پر الزام تھیں ، تو میں نے ان سے بطور بھائی بات کرنا ترک کردیا اور ان سے بات کرتے ہوئے میرے لب و لہجے میں ترشی رہنے لگی ، لیکن الحمد للہ ، جس نے مجھے اسلامی آداب کی حدود سے نکلنے سے روکا رکھا ،
یہ سب تعارفی تمہید میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہاں اِس مضمون میں بھی میں ایک ایسے ہی شخص کی ایک ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کی ایک بدترین مثال کا جائزہ پیش کرنے والا ہوں ،
وہ شخص چند تراجم کا سطحی سا مطالعہ کرکے ، صحیح ثابت شدہ احادیث کا انکار کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین مبارکہ کو اُن کے مقام سے ہٹا کر ان میں معنوی تحریف کرنے والا بھی ہے ،
اور اپنے علاوہ ساری ہی اُمت کو بلا لحاظ و بلا تمیز گناہ گار اور بے ایمان کہنے والا ہے ،
اور کئی مقامات پر تو ایسی باتیں لکھ چکا ہے جواللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر الزام اور اعتراض کی صُورت ہیں ، اور کچھ ایسا ہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بھی کر چکا ہے ،
لہذا میں اپنے تمام محترم قارئین بھائیوں اور بہنوں سے بشمول ناظمین حضرات سے پیشگی گذارش کرتا ہوں کہ اگر میرے الفاظ میں کچھ سختی پائیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ، اللہ کے کلام میں معنوی تحریف کرنے والوں اور اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کا انکار کرنے والوں ، اور اس پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ ثابت ہوتا ہے کہ نہیں ،
قارئین کرام ، اُس شخص نے اپنی اسی ترجمہ زدہ جہالت کی بنا پر نے نزول قران سے لے کر آج تک سارے ہی مسلمانوں میں متفق معاملے کو حرام قرار دیا اوروہ معاملہ ہے ‘‘‘‘‘ فرسٹ کزنز کے ساتھ شادی ’’’’’،
اُس شخص کے کہنے کے مطابق یہ شادی حرام ہے ، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی جتنی شادیاں ہو چکیں اُن کے نتیجے میں میاں بیوی بننے والے جوڑے حرام کاری کرتے رہے اور ان کی اولادیں حرام کی ہوئیں اورجو جوڑے ابھی موجود ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں اور ان کی اولادیں بھی اسی طرح کی ہیں ، اور جتنے جوڑے اس طرح کے ہوں گے وہ حرام کار ہوں گے اور ان کی اولادیں حرامی ہوں گی ،
مبارک ہو مسلمانو، اس نئے جہالت زدہ فتوے کے مطابق ذرا دیکھیے تو ہم میں سے کتنے حلال زادے ہیں ؟؟؟
اللہ ہی بہتر جانے کہ ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے شکار کے اپنوں میں سے کتنے اُس کے فتوے کی زد میں آ کر حرام کاری کر نے والے تھے اور ہیں ؟؟؟
اس کے فتوے کی مار صرف مجھ یا آپ تک ہی نہیں ہوتی قارئین کرام ، بلکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہوتی ہوئی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچتی ہے ، کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں اس قدر تسلسل اور تکرار کے ساتھ حرام کاری ہوتی چلی آرہی ہے اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے روکا اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گناہ مسلسل کو ، اور حرام کی اولادوں سے بننے والے معاشرے کو بننے اور پنپنے سے روکا ، تو اب کیا چودہ سو 33 سال بعد اللہ کے دین اور مسلمانوں کے سب سے بڑے اور کھلے دشمن کی گود میں بیٹھ کر ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کے مریض کو کیا نئی وحی نازل ہوئی ہے ؟؟؟
وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اِس درج ذیل فرمان مبارک کو اپنی ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے زعم میں ، اِس فرمان شریف کی معنوی تحریف کرتا ہے :::
(((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَاخَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَقَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا :::اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں،اور وہ بھی حلال کر دی گئیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں عطاء فرمائیں ،اور آپ کے چچا وتایا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز) جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ، اور (کوئی )اِیمان والی عورت اگر اپنا آپ نبی کے سُپرد کرے ، (اور)اگر نبی اُس ایمان والی عورت سے نکاح کرنے کی نیت رکھیں (تو اے نبی وہ عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے، یہ( اجازت)صِرف آپ کے لیے ہے ، یقیناً ہم اُس کا علم رکھتے ہیں جوکچھ ہم نے لوگوں پر اُن کی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے ، (اور ہم نے یہ اس لیے کیاہے )تا کہ (اے محمد)آپ پر کوئی حرج نہ رہے ، اور بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الاحزاب (33) /آیت 50 ،
اس آیت مبارکہ کو استعمال کرتے ہوئے اُس شخص نے جو کچھ کہا اُس کا حاصل کلام یہ ہی ہے کہ کزنز کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی گئی تھی ، اور وہ بھی اُ ن کزنز کے ساتھ جنہوں نے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی،
اس موضوع پر میری اُس شخص سے کچھ بات چیت ستمبر 2010 میں ، پاک نیٹ پر ہوئی ،
اس کا ربط درج ذیل ہے :::
خاندان میں آپس کی شادیوں کے نتائج - صفحہ 3 - پاکستان کی آواز
وہاں اُس شخص کی ‘‘‘خود ساختہ خلاف قران ، قران فہمی’’’ کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح واضح کروایا ، یہ آپ صاحبان وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ،
اب مجھے خبر ہوئی کہ پاک نیٹ پر کہ جہاں اُس کی غلطیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی ہی وضاحت اور براھین کے ساتھ واشگاف کروایا ہے ،وہاں اپنی غلطیوں کے واضح ہوچکنے کے بعد اب تقریبا 25 ماہ کے بعد وہ بندہ اپنی وہی خلاف قران ، قران فہمی اٹھائے یہاں اُردُو مجلس میں بھی چلا آیا ،لیکن اِس دفعہ اُس نے ایک پینترا بدل رکھا ہے ، اور وہ یہ کہ اس دفعہ اُس نے صرف‘‘‘ کزنز ’’’سے شادی کو حرام کہنے کی بجائے‘‘‘ فرسٹ کزنز ’’’ کی بات کی ہے ، میں اپنے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بے عیب کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید کرتا ہوں کہ اُس شخص کے فتوے میں یہ تبدیلی میری اور اُس کی وہ سابقہ بات چیت ہی ہے، جِس کا میں نے ابھی ذِکر کیا،
قارئین کرام ، میں یہاں اُس شخص کی لکھی ہوئی معنوی تحریفات کو نقل نہیں کر رہا ہوں، اُس نے جو کچھ کہا وہ آپ صاحبان ذکر شدہ ربط پر پڑھ سکتے ہیں ،
میں اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ، اُس کے لکھے ہوئے ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ پر مبنی فتوے اور باتوں کا بطلان ، اللہ سُبحانہ و تعالیٰ ، اُس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال میں سے صحیح تاریخی روایات کے مطابق ثابت کروں گا ،
سب سے پہلے تو اِن شاء اللہ میں یہاں سُورت الاحزاب کی آیت رقم 50 کو بمعہ ترجمہ ، اوربالکل مختصر سی استفساری شرح کے انداز میں ذِکر کرتا ہوں ، اور اس میں کچھ ایسے سوالات بھی شامل کروں گا جن کے جواب ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہموں ’’’ کی طرف سے درکار ہیں ، اور اللہ القوی القدیر پر توکل کرتے ہوئے اور اُسی کے دکھائے ہوئے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہوں کہ اُن لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی اِسلامی علم میں سے مقبول علمی دلیل، اور اِسلامی آداب واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے ، جواب نہیں دے سکتا ، ایسا جواب جو اُس کی اپنی ہی باتوں کی تردید نہ ہو،
عزت مآب قارئین بھائیو، بہنو، اِن شاء اللہ ، جو سوالات میں شامل کرنے والا ہوں ، اُن کے جوابات اِن ‘‘‘خِلاف ء قران ، قران فہموں ’’’ کی ، جہالت ،گمراہی ، قران دُشمنی ، صاحبء قران صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم و فداہُ کل ما رزقنی اللہ سے دُشمنی جِس کا سلسلہ اللہ جلّ جلالہُ تک جا پہنچتا ہے ، اُس دُشمنی کو واضح کرنے والے ہوں گے ، اِن شاء اللہ ، و باذنہ الذی يُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ۔
قارئیں کرام ، آیت اللہ جلّ و علا کے فرمان میں تدبر کرتے ہیں ، اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ ::: اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں)))))
قارئین کرام ، آیت مبارکہ کے ابتدائی حصے میں اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے ایک خبر عطاء فرمائی ہے ، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب فرما کر ،ایک رشتہ داری بنانے کو ، ایک رشتہ کو اُن کے لیے حلال ہونے کی خبر عطاء فرمائی ہے ، جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحت مند اور درست فہم عطاء فرما رکھا ہو اُسے اللہ پاک کا یہ مذکورہ بالا فرمان سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں ہوتا ،
لیکن ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے ڈسے ہوئے لوگوں نے جو ‘‘‘ خلافء قران ’’’فلسفہ بنایا ، اُسی فلسفے کے مطابق میں اُن لوگوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ :::
***1*** اِس آیت کریمہ کے مطابق یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس دو قسم کی بیویاں تھیں ،(1) ایک تو وہ جن کو مہر ادا کیا گیا تھا ، اور (2) دوسری وہ جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا ،،،معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ،،،کیا تُم لوگوں کے گھڑے ہوئے ، یا اختیار کردہ فلسفے کے مطابق یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اِس آیت مبارکہ کے نزول سے پہلے وہ دونوں ہی قِسم کی بیویاں حلال نہ تھیں ؟؟؟؟؟؟؟لہذا ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اِس آیت مبارکہ میں یہ فرما کر کہ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وہ بیویاں تو حلال کر دیں جنہیں مہر ادا کیا گیا تھا، اور جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا وہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حلال نہیں ہوئیں ؟؟؟؟؟؟؟ کیونکہ اُن کو حلال قرار دیے جانے کا تو اِس آیت کریمہ میں کہیں ذِکر ہی نہیں فرمایا گیا !!!!!!!،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
میری بات جاری ہے ، لہذا سب ہی محترم قارئین سے گذارش ہے کہ اپنی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے میری بات مکمل ہونے کا انتظار فرمائیں ، اِن شاء اللہ ایک دو دن میں میری بات مکمل ہو جائے گی ،
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ کہ موضوع کے تسلسل اور یکسوئیت کو برقرار رکھنےکےلیے درمیان میں داخل ہونے والے اور موضوع سے ہٹے ہوئے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، جزاکم اللہ خیرا، و السلام علیکم۔
 
گذشتہ سے پیوستہ ::: دوسرا حصہ :::
اس کے بعد ، اللہ تبارک وتعالیٰ ، دوسری خبر فرماتا ہے کہ (((((وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ ::: اور وہ بھی حلال کر دی گئیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں عطاء فرمائیں)))))
***2*** اِس دوسری خبر کے بارے میں ، ایک اضافی فائدہ یہ ذِکر کرتا چلوں کہ یہ فرمان اُن لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے رَد ہے جو لوگ باندیوں کوبطور بیوی رکھنا جائز نہیں سمجھتے ،یہ ‘‘‘ خِلاف قران ، قران فہمی ’’’ والے بھی انہی میں سے ہیں ،
***3*** اِس دوسری خبر کی روشنی میں ،‘‘‘ خِلاف قران ، قران فہمی ’’’ والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا تُم لوگوں کے من گِھڑت یا اپنائے ہوئے فلسفے کے مطابق آیت کریمہ کے اِس مذکورہ بالا حصے ، اِس دوسری خبر سے یہ سمجھا جائے کہ ،،،معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ،،، غنیمت میں ملنے والی عورتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے پاس بطور بیوی رکھی ہوئی تھیں وہ بھی، اِس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے اُن کے لیے حلال نہ تھیں ؟؟؟؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ، اللہ تبارک وتعالیٰ ، تیسری خبر فرماتا ہے کہ (((((وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ :::اور آپ کے چچا وتایا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز)جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی )))))
***4***اس تیسری خبر کی روشنی میں پھر کچھ اور سوال اٹھتے ہیں کہ ، تُم لوگوں کے خود ساختہ یا اپنائے ہوئے فلسفے کے مطابق تو یہ ہوا کہ اِس آیت شریفہ کے نزول سے پہلے اِن رشتوں والی عورتوں سے نکاح کرنا حلال نہ تھا ، تو کیا وہ نکاح جو اِس آیت کے وقت موجود تھے ، فسخ کروا دیے گئے تھے؟؟؟؟؟
یا جُوں کے تُوں برقرار رہے تھے؟؟؟؟؟
اگر فسخ کروائے گئے تھے تو پھر تُم لوگوں کے فلسفے کی تائید کی کچھ معمولی سے اُمید دِکھتی ہے ، لیکن اس کے لیے تم لوگوں کو ثابت شدہ ثبوت مہیا کرنا ہوں گے، کیا تُم لوگوں کے پاس ایسے ثبوت ہیں؟؟؟؟؟
اور اگر فسخ نہیں کروائے گئے تھے تو پھر تُم لوگوں کا فلسفہ یقیناً غلط ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ یہ نا ممکنات میں سے ہو گذرا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے اللہ کی حُرمات پامال کی جائیں اور وہ اُس کو روکیں نہیں ، اور ایسا سمجھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے یہ حرام رشتے برقرار رہے اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کچھ نہ کِیا ، براہ راست اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک پر بہت ہی بڑا اور گھناؤنا الزام ہے ،
پس تُم لوگوں کا یہ فلسفہ اور یہ فتویٰ مذکورہ بالا دو میں سے ایک نتیجے کا ہی حامل ہو سکتا ہے ،
قارئین کرام ، آیت کریمہ کے اِس مذکورہ بالا حصے میں سے(((((اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ ::: وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز)جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی)))))سے اُس شخص نے یہ سمجھ لیا کہ صِرف انہی فرسٹ کزنز کے ساتھ نکاح کی اجازت دی گئی جنہوں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہی ہجرت کی ،
اُس شخص کا یہ سمجھنا بالکل ‘‘‘ خلاف ء قران ’’’ہے ، کیونکہ اس فرمان مبارک سے یہ قطعاً لازم نہیں ہوتا کہ یہ صِرف انہی فرسٹ کزنز کی بات ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ایک ہی وقت میں ، ایک ہی سفر میں ہجرت کی ،
دیکھیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلیمان اور ملکہ ء سبا کے واقعے میں ملکہ سباء کے اِیمان لانے کا ذِکر اُسی کے الفاظ کے طور پر یوں بیان فرمایا ہے (((((قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ:::اُس نے کہا ، اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی تابع فرمان ہوئی))))) سُورت النمل (27)/ آیت 44،
تو کیا ملکہ ء سبا نے سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اُسی وقت میں ایمان قبول کیا تھا ، جِس وقت سلیمان علیہ السلام نے کیا تھا ؟؟؟؟؟
جی نہیں ، اور قطعا نہیں ، لہذا(((((اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ ::: وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز)جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی))))) سے وہ پابندی مراد لیناجو اُس شخص نے لی رکھی ہے ‘‘‘ خلافء قران’’’ ہے، پس اُس کی سمجھی ہوئی مراد شرعاً مردُود ہو جاتی ہے ، اوراِس طرح بھی اُس کا چھوڑا ہوا فتویٰ باطل ہو جاتا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ، اللہ تبارک وتعالیٰ ، چوتھی خبر فرماتا ہے کہ (((((وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَاخَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ:::اور (کوئی )اِیمان والی عورت اگر اپنا آپ نبی کے سُپرد کرے ، (اور)اگر نبی اُس ایمان والی عورت سے نکاح کرنے کی نیت رکھیں (تو اے نبی وہ عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے، یہ(اجازت)صِرف آپ کے لیے ہے )))))
***5***کیا صرف نبی کے لیے ہے، کس کام کی اجازت صِرف نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے ہے؟؟؟؟؟؟؟
یہاں تک چار قسم کی عورتوں کو بیوی بنانا حلال قرار دیا گیا ہے ،اور خصوصیت ، اور استثنائی حالت صرف ایک بیان فرمائی گئی ہے ، تو چاروں میں سے کون سی عورت کو بیوی بنانا صرف نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےلیے خاص ہوا ؟؟؟؟؟؟؟
اگر صرف آخری بات کو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خصوصی اجازت اور استثنائی معاملہ سمجھا جائے، جو کہ لغوی قواعد کے زیادہ قریب ہے ، تو ‘‘‘خلافء قران ، قران فہموں ’’’کی بنیاد ہی اُجڑ جاتی ہے اور اُس بنیاد پر کھڑی گئی فلسفوں اور خود فہمیوں کی عمارت نابود ہو جاتی ہے،،،،،
اور اگر یہ سمجھا جائے کہ چاروں ہی قسم کی بیویاں بنانے کی اجازت صِرف نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص تھی ، کہ لغتاً ایسا سمجھنے کا بھی احتمال ہے ، اور‘‘‘خلافء قران ، قران فہموں ’’’ کی طرف سے اس آیت کریمہ کی معنوی تحریف کا تانہ بانہ اُس احتمال کی وجہ سے بُنا ہوا لگتا ہے ، تو پھر یہ ماننا ہی پڑے گا کہ ‘‘‘خلافء قران ، قران فہموں ’’’ کے فلسفے کے مطابق اُن کے سمیت شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہوگا جس نے حلال نکاح کیا ہو،
کیونکہ عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کیا جانا بھی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص ٹھہرا ،
اور بغیر مہر دیے نکاح کرنا بھی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص ٹھہرا ،
اور فرسٹ کزنز جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہی ساتھ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی سفر میں ہجرت کی اُن کے ساتھ نکاح کرنا بھی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص ٹھہرا،
اور جو عورت اپنا آپ کسی کو ہبہ کرے اُس کے ساتھ نکاح کرنا بھی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص ٹھہرا۔
::::::: ایک اور زوایہ فہم ::::::
اگر اُس شخص کے‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ زدہ فلسفے کے مطابق یہ سمجھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وہ فرسٹ کزنز جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی صِرف اُن کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی گئی تھی ، تو اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ اُن فرسٹ کزنز کے علاوہ کسی اور فرسٹ کزن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو نکاح کرنے کی اجازت نہ ہوئی، اور چونکہ یہ معاملہ صِرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص تھا ، لہذا اُن کی اُمت پر ایسی کوئی پابندی نہ تھی اور نہ ہے کہ کسی فرسٹ کزن سے، یا کسی بھی سٹیپ کے کزن سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ،
پس اس طرح بھی اُس شخص کا ‘‘‘خلافء قران ’’’ فتویٰ باطل ہوا ، وللہ الحمد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ، اللہ تبارک وتعالیٰ ، آیت کریمہ کو ختم فرماتے ہوئے پانچویں ، اور چَھٹی خبر فرماتا ہے کہ (((((قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا:::یقیناً ہم اُس کا علم رکھتے ہیں جوکچھ ہم نے لوگوں پر اُن کی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے ، (اور ہم نے یہ اس لیے کیاہے )تا کہ (اے محمد)آپ پر کوئی حرج نہ رہے ، اور بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))
یعنی یہ جو خصوصی اجازت صِرف آپ کو دی جا رہی ہے ، اور دوسروں کو نہیں دی جا رہی ، یہ ہمارے علم کے مطابق ہے ، اور ہم نے خود یہ سب کچھ فرض کیا ہے ، ان کے دیے اور نہ دیے جانے میں، ان کے فرض کیے جانے میں آپ کا ذاتی عمل دخل نہیں ہے ، او ر یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ کہیں کسی کے دِل میں یہ خیال نہ ٹھہر پائے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی مرضی سے اس طرح نکاح کیے جس طرح اللہ کی طرف سے منظور نہ تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، یہاں تک کی بات یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حق یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے صرف مخصوص خواتین سے نکاح کرنا حلال کیا اور اُن کے علاوہ دیگر خواتین سے حلال نہ رکھا ،
یعنی ، اللہ تعالیٰ نے جن خواتین کا ذکر اس آیت مبارکہ میں فرمایا اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف انہی میں سے کسی کے ساتھ ازدواجی تعلق بنا سکتے تھے ، ان خواتین کے علاوہ کسی بھی اور سے نہیں ،
اور یہ ہے وہ حکم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص تھا ، کسی اور اِیمان والے پر یہ پابندی نہیں تھی ، اور نہ ہے ، اسی پر نزولء آیت سے لے کر اب تک بلا نزاع اُمت کا عمل ہے ،
اب اگر کوئی اِدھر اُدھر سے قران پاک کے کچھ ترجمے پڑھ کر اور کچھ فلسفے بنا کر ، یا کہیں سے اپنا کر، یا اپنے نفس کی آراء کی بنا پر قران کریم کے ایسے مفاہیم بتانے لگے جو ساری اُمت کے اتفاق کے خلاف ہو ں،اور اپنی اِس ‘‘‘خلافءقران قران فہمی ’’’ کے اندھیرے میں تقریبا ًساری اُمت کے دو تہائی سے زیادہ حصے کو اِس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے لے کر اب تک حرام کار قرار دےاور اُن کی اولادوں کو حرام قرار دے تو اُس کی بات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ،
کیونکہ اُس کے پاس اپنے اِس ‘‘‘ خلاف ء قران ’’’ فلسفے کی کوئی دلیل نہیں ، اور عقلی موشگافیاں دین سمجھنے میں کام نہیں دے سکتیں ،
پس اِس مذکورہ بالا آیت مبارکہ کا یہی مفہوم ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ، وللہ الحمد ،
جی ہاں ، اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عمل رہا ، اور اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اور ان کے بعدآج تک اُمت کا عمل رہا ہے ،
مفسر القران عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان ہے کہ """ اس آیت کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کسی بھی عورت سے نکاح فرماتے ، لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پابندی عائد فرما دی """
اور امام الصحابہ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ ُ نے بھی اس آیت کے بارے میں یہی فرمایا ،
تفیسر کی معتبر ترین کتابوں میں یہ اقوال با سند موجود ہیں ،
جن کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ‌صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص یہ ہے کہ وہ صرف انہی خواتین سے رشتہ ازدواج قإئم فرمإئیں جن کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے ، ان کے علاوہ دیگر خواتین کے ساتھ نہیں ، لیکن یہ پابندی دیگر ایمان والوں پر نہیں ، وہ چاہیں تو ان رشتوں اور غیر مہاجرات مومنات خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں ،اور ساری ہی امت ایسا کرتی چلی آ رہی ہے ،
قارئین کرام ، گو کہ رسول اللہ‌صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے نکاح کے علاوہ باقی سب ہی نکاح اللہ کے دین کی نصرت کے لیے تھے نہ کہ ان کی ذات کے لیے ، لیکن اس کے باوجود اس آیت مبارکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کوٕئی نکاح نہیں فرمایا ،
اور یہ بات اُن سب لوگوں کے لیے طمانچہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کثرتء نکاح کے بارے میں بد خیالیوں اور بد باتوں کا نہ صِرف خود شکار ہیں بلکہ اُن کو نشر بھی کرتے ہیں ، خواہ وہ بظاہر مسلمان نظر آتے ہوں یا کافر ہی ہوں ،
‘‘‘ خلاف ء قران ، قران فہمی ’’’ کے مارے ہوئے لوگ اگر اپنے فہم میں درست ہیں ، تو انہیں چاہیے کہ یہ بتاتے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی طرف سے کوئی ایسا قول یا فعل ملتا ہو جو اُن لوگوں کے فلسفے کی تائید کرتا ہو ،
جیسا کہ میں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ‘‘‘‘‘ جی ہاں ، اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عمل رہا ، اور اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اور ان کے بعدآج تک اُمت کا عمل رہا ہے ’’’’’، تو اس بات کے ثبوت میں ، اور اُس شخص اور اُس کے ہم مذھبوں اور ہم مسلکوں کی ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ کی مزید وضاحت کے لیے اب میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے اشرف ترین گھرانے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے براہ راست رشتہ داروں رضی اللہ عنہم اجمعین میں سےچند مثالیں پیش کرتاہوں ، اللہ کرے ان کو دیکھ ، پڑھ کر اُس شخص اور اُس کے ہم خیالوں کو بھی اپنی اصلاح کی ہمت ہو جائے اور دیگر قارئین بھائی بہن بھی ان کی غلط فہمیوں کو پہچان لیں ، اور ان کی قران فہمی کی اصلیت جان لیں ،
یہ معلومات میں نے پہلے بھی اُس شخص کے سامنے سوالیہ انداز میں رکھی تھیں ، اور ایک عرصہ تک اُس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو الحمد للہ ، ایک محترم بھائی کے کہنے پر میں نے ہی اُن سوالوں کے جوابات بھی ارسال کیے ، یہاں میں وہی سوال و جواب نقل کر رہا ہوں :::
::: سوال :::أمیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی زوجہ محترمہ اُمامہ بنت ابو العاص کے ساتھ نکاح سے پہلے اُن کا کیا رشتہ تھا؟؟؟
::: جواب :::اُمامہ بنت ابو العاص ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیٹی زینب کی بیٹی تھیں ، یعنی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی بھتیجی کی بیٹی تھیں۔(یعنی اُس شخص کے بنائے ہوئے خود ساختہ منطقی پھیلاو کے مطابق علی رضی اللہ عنہ ُ کی پوتی تھیں ۔۔۔اِن شاء اللہ اِس منطقی پھیلاؤ کے بارے میں بھی اِن شاء اللہ بات کروں گا)
::: سوال :::ذرا بتایے تو ، مُحمد بن عقیل بن ابی طالب کی زوجہ محترمہ کون تھیں؟؟؟
::: جواب :::اُن کے چچا علی بن ابی طالب کی بیٹی زینب الصغریٰ اور اُن سے پہلے اُن کی ہی بہن اُم ھانی بھی اپنے تایا کے اسی بیٹے سے بیاہی ہوئی تھیں۔فرسٹ کزنز۔
اور ان کی وفات کے بعد یہ زینب الصغریٰ اپنے والد کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے کثیر بن عباس بن عبدالمطلب کے نکاح میں تشریف لائِیں ۔ یعنی نکاح سے پہلے رشتہ میں چچا بھتیجی تھے ۔
::: سوال :::ذرا بتایے تو عمر الاکبر بن علی بن ابی طالب کی زوجہ محترمہ کون تھیں؟؟؟
::: جواب :::اُن کے تایا عقیل بن ابی طالب کی بیٹی أسماء بنت عقیل ۔ فرسٹ کزنز ۔
::: سوال :::ذرا بتایے تو میمونہ بن علی بن ابی طالب کے شوہر کون تھے؟؟؟
::: جواب :::اُن کے تایا عقیل بن ابی طالب کے بیٹے عبداللہ۔ فرسٹ کزنز ۔
::: سوال :::ذرا بتایے تو کثیر بن العباس بن عبدالمطلب کی بیویوں میں سے یکے بعد دیگرے جو تین بہنیں تھیں وہ کس کی بیٹیاں تھیں؟؟؟
::: جواب :::امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ُ کی ۔ یعنی نکاح سے پہلے رشتہ میں چچا بھتیجیاں تھے ۔
::: سوال :::ذرا بتایے تو تمام بن العباس بن عبد المطلب کی بیویوں میں کس کس کا نام ہے؟؟؟
::: جواب :::اُم الکرام، اُم جعفر اور جُمانہ تینوں ہی أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی بیٹیاں تھیں ۔ یعنی نکاح سے پہلے رشتہ میں چچا بھتیجیاں تھے ۔
اس میں مزید اضافہ کرتا ہوں دیکھیے ،
أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی بیٹی زینب الکُبریٰ کا نکاح ان کے چچا زاد فرسٹ کزن محمد بن جعفر بن ابی طالب سے ہوا ،
أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی ایک اور بیٹی رُقیہ بنت علی بن ابی طالب کا نکاح بھی اُن کے فرسٹ کزن مُسلم بن عقیل بن ابی طالب سے ہوا ،
أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی ایک اور بیٹی خدیجہ بنت علی بن ابی طالب کا نکاح اُن کے فرسٹ کزن عبدالرحمٰن بن عقیل بن ابی طالب سے ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے خاص اور قریبی ترین خاندان میں فرسٹ کزنز میں شادیوں کی یہ مثالیں اور ان کے علاوہ اور بھی بہت ہیں ،
اور کوئی دُور کے دَور کی نہیں ہیں ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اُن کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نواسے حسین اور حسن رضی اللہ عنہما ، اور دیگر کئی عظیم المرتبہ ، قران اور سنت مبارکہ کا مکمل اور یقینی علم رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی موجودگی کے دور کی باتیں ہیں ، اور سچ ہیں ،
اللہ کی قسم اگر ان عظیم المرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اِن کی عالی شان اولادوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے براہ راست رشتہ داروں کو قران کریم کی اس آیت کی سمجھ نہیں آئی تو کسی اور کو نہیں آ سکتی ، خواہ وہ خود کو کچھ ہی سمجھتا رہے اور کچھ ہی بنا کر دکھانے کی کوششیں کرتا رہے ،
قارئین کرام ، اب یہاں کچھ تھوڑا سا توقف فرماتے ہوئے ،تمہیدمیں کہی گئی میری باتوں کو ذہن میں لایے اور دیکھیے کہ اُس شخص کی جہالت پر مبنی تفیسرکی زد میں تو سب سے پہلے یہ مذکورہ بالا محترم اور پاکیزہ لوگ ہی آتے ہیں جنہوں نے قریبی رشتہ داروں ، کزنز میں اور ان کی اولادوں میں شادیاں کیں ،
پس ہر ایک قاری سے درخواست کرتا ہوں کہ بڑے ہی تحمل سے سوچیے کہ فرسٹ کزنز کے ساتھ نکاح کرنے کو غلط کہنےوالے کس قسم کی قران فہمی رکھتے ہیں ، اللہ ہم سب کو ہر گمراہی سے محفوظ رکھے ،
ایک دفعہ پھراللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر اُس وقت اللہ کے کلام کی سمجھ اللہ کے مقصود و مطلوب کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی تربیت میں پلنے والی اُن کی اولاد کو نہیں إٓئی تو اُن کے بعد ایک آدھ تو کیا کڑوڑوں ، نام نہاد، خود ساختہ ‘‘‘قران فہم ، قران کے طالب علم ، قران کے خادم ’’’ نُما مل کر بھی نہیں سمجھ سکتے ، ایسے نہاد، خود ساختہ ‘‘‘قران فہم ، قران کے طالب علم ، قران کے خادم ’’’ نُما لوگ جو کچھ اُن پاکیزہ ہستیوں کے فہم کے خلاف سمجھتے ہیں وہ یقنی گمراہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے محترم قارئین ، یہاں تک پیش کی گئی معلومات کے مطابق بہت اچھی طرح سے یہ سمجھ آ جاتا ہے کہ فرسٹ یا سٹیپ کزنز سے نکاح کرنے کو حرام قرار دینے والے شخص یا گروہ کی غلط اور""" خلافء قُران، خود ساختہ قران فہمی""" کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ وہ شخص اور اُس کے ہم مذھب لوگ اپنے فلسفوں کے زعم میں سب ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اور تابعین رحمہم اللہ کو غلط کہہ رہے ہیں ، قران پاک کو سمجھ نہ سکنے والے کہہ رہے ہیں ، بعد والوں کی تو بات ہی چھوڑیے،
اُس شخص اور اُس کے ہم خیالوں کو یقیناً پتہ نہیں کہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نواسی یعنی اپنی رشتے کی بھتیجی سے شادی سورت الاعراف کی آیت 50 کے نزول کے بعد ہی ہوئی ، کیونکہ جب تک سیدۃ نساء اھلالجنۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے کوئی اور نکاح نہیں کیا ،
اوریہ بات تقریباً ہر مسلمان ہی جانتا ہو گا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم کے دُنیا سے رُخصت ہونے کے بعد فوت ہوئیں ، یعنی قران کی مکمل تنزیل کے بعد علی رضی اللہ عنہ ُ نے یہ نکاح فرمایا ، اور پھر ان کے بیٹے بیٹیوں کے یہ نکاح جو ان کے فرسٹ کزنز میں ہوئے ، اِس سے بڑھ اور کیا دلیل چاہیے اُن‘‘‘ خلاف ءقران ، قران فہموں ’’’ کی الزام تراشی کو سمجھنے کے لیے ،
اب یہ ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ والے لوگ خواہ کچھ بھی تاویلات کرتے رہیں یہ واضح ہو چکا کہ یہ اپنی جہالت کو فہم قران سمجھ کر پوری اُمت کی بنیادوں پر حملہ آور ہیں اور ان لوگوں کے اعمال کو بھی منطقی طور پر گناہ قرار دے رہے ہیں جن کے ایمان اور عمل کی صداقت کی گواہی اللہ نے اسی قران میں دی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات جاری ہے ، لہذا سب ہی محترم قارئین سے گذارش ہے کہ اپنی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے میری بات مکمل ہونے کا انتظار فرمائیں ، اِن شاء اللہ ایک دو دن میں میری بات مکمل ہو جائے گی ،
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ کہ موضوع کے تسلسل اور یکسوئیت کو برقرار رکھنےکےلیے درمیان میں داخل ہونے والے اور موضوع سے ہٹے ہوئے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، جزاکم اللہ خیرا، و السلام علیکم۔
 
::::::: ایک اور انداز فہم کے مطابق آیت کریمہ کی تفہیم :::::::
محترم بھائیو، اور بہنو، ہم سب ہی مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے کلام کو اللہ کے کلام کے مطابق ، اور پھر اللہ کی ہی وحی کے مطابق کلام فرمانے والے اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح سنت مبارکہ کے مطابق ، اور پھر اللہ کے چنیدہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال اور افعال کے مطابق سمجھا جانا ہی حق کی راہ ہے ،
لہذا سب سے پہلے ہم کتاب اللہ کو کتاب اللہ کے ہی مطابق سمجھنے کے پہلے ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے سُورت الاحزاب (33) کی آیت رقم 50 کو سمجھتے ہیں :::
پاک نیٹ پر ، اپنے فلسفے کا دفاع کرنے کے چکر میں اُس شخص نے اپنی قران فہمی کے زعم میں سورت النساء کی دو آیات کو بھی اپنے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے اور الحمد للہ وہ آیات مبارکہ اُس کی ‘‘‘خلاف ءقران قران فہمی ’’’ کی تائید میں اُسے کچھ فائدہ دینے والی نہیں ہیں ،
اگر سُورت النساء کی اُن دو آیات مبارکہ کو ذکر کرنے سے پہلے وہ بندہ اُن دو آیات مبارکہ پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئےغور کر لیتا اور جو کچھ اُن دو آیات مبارکہ میں بیان ہوا ہے اُس پورے مضمون و موضوع کو آغاز سے دیکھ لیتا تو اُسے شاید یہ سب کچھ بلکہ شاید کچھ بھی لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی ،
آیے دیکھتے ہیں کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے سورت النساء کی اُن دو مبارک آیات میں بیان کردہ موضوع کہاں سے شروع فرمایا اور کس آیت مبارکہ میں کیسے اختتام پذیر فرمایا :
آیت رقم 22 سے بات کا آغاز ہوتا ہے :
(((((وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا:::اور تُم لوگ اُن عورتوں سے نکاح نہیں کرو جن سے تُمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں(لیکن اس حکم سے پہلے)جو ہو چکا(سو ہو چکا)بے شک یہ بہت ہی بے حیائی اور(اللہ کی)شدید ناراضگی والا کام ہے اور بہت ہی برا طریقہ ہے)))))سورت النساء(4)/آیت 22،
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن رشتوں کے ذکر کا آغاز فرمایا جن سے نکاح کرنا حرام ہے ، اسکے بعد اسی حکم کی مزید تفصیل اگلی آیت میں بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا :::
((((( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمً :::تُم لوگوں پر حرام کر دی گئی ہیں تُماری مائیں ، اور بیٹیاں ،اور پھوپیاں ، اور خالائیں ، اور بھتیجیاں،اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تُمہیں دودھ پلایا ہو اور رضاعی(یعنی دودھ پینے کے رشتے سے بننے والی)بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو(وہ بھی تم پر حرام ہیں)ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو(ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں)تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارےاپنےبیٹوں کی عورتیں بھی(حرام ہیں)اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی(حرام ہے)مگر جو ہو چکا(سو ہو چکا)بے شک اللہ بخشنے والا (اور)رحم کرنے والا ہے)))))سورت النساء (4)/آیت 23،
اس کے بعد ، اگلی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا :::
((((( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةًوَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا:::اور وہ عورتیں جِن کے شوہر ہوں وہ عورتیں بھی(تم پر حرام ہیں)لیکن(ایسی عورتیں)جو(قید ہو کر لونڈیوں کے طور پر)تمہارے قبضے میں آجائیں(یہ احکام) اللہ نے تُم لوگوں پر لکھ دیے ہیں (یعنی فرض کر دیے)اور(نکاح کے لیے حرام کردہ) ان عورتوں کے عِلاوہ تُم لوگوں کے لیے دوسری عورتیں حلال ہیں ،اگر تُم لوگ اپنا مال خرچ کر کے اپنی عفت بچانے کے لیے(یہ نکاح کرنا چاہو تو)نہ کہ اپنی شہوت رانی پوری کرنے کے لیے ،پس جن عورتوں سے تُم(بذریعہ نکاح)فائدہ حاصل کرو تو اُن کے لیے جو مہر مقرر کیا ہو وہ ادا کر دو ، اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم لوگوں پر کچھ گناہ نہیں بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا(اور)حکمت والا ہے )))))،
اس مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سےحُکم فرما دیا کہ جِن عورتوں کا ابھی ذکر کیا گیا ہے اُن کے عِلاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرنا تُم لوگوں کے لیے حلال ہے ،
اور اُن حلال عورتوں میں قریبی رشتہ دار بدرجہ اولیٰ داخل ہوتے ہیں ، اس چیز کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے اِس فرمان کے ذریعے دی(((((إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِى الأَرْضِ وَفَسَادٌ:::اگر تُم لوگوں کے پاس کوئی ایسا شخص(رشتہ لے کر)آئے جِس کے دِین اور کِردار سے تُم راضی ہو تو اُس کا نکاح کر دو اور اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد ہو گا))))،
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا """ اگر اُس میں کوئی (جسمانی یا معاشی) کمی ہو ؟ """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسل نے تین دفعہ یہ اِرشاد مبارک دہرایا((((( إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ ::: اگر تُم لوگوں کے پاس کوئی ایسا شخص (رشتہ لے کر ) آئے جِس کے دِین اور کِردار سے تُم راضی ہو تو اُس کا نکاح کر دو)))))سنن الترمذی /حدیث1107 /کتاب النکاح /باب3، درجہءصحت حسن ،مشکاۃ المصابیح/حدیث3090،سنن ابن ماجہ /حدیث 1957/کتاب النکاح /باب46 ،
یعنی کسی رشتہ داری کے اندر یا اس سے باہر کی کوئی پابندی نہیں ،
اور اِرشاد فرمایا((((( تَخَيَّرُوا لِنُطَفِكُمْ وَانْكِحُوا الْأَكْفَاءَ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِمْ:::اپنے نطفے کے لیے(اچھی بیویاں)اختیار کیا کرو اور برابری والوں سے نکاح کرو اور برابری والوں میں نکاح کرو)))))سنن ابن ماجہ/حدیث1968/کتاب النکاح /باب46، السلسہ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 1067،
اس صحیح حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہم اپنے لیے ایسی خواتین کا انتخاب کریں جو شریف با کردار مسلمان ہوں ، اور اپنے لیے اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی شادی کے لیے برابری والے لوگ تلاش کریں ، اور کسی شک کے بغیر سب سے پہلے برابری میں نسب و نسل کو دیکھا جاتا ہے اور اپنے ہی خونی اور رحم کے رشتوں سے بڑھ کر برابری کہیں اور میسر نہیں ہوتی ، اس تعلیم پر اُمت کا ہمیشہ سے بغیر کسی نزاع کے اتفاق اور عمل چلا آ رہا ہے ،
نکاح کے ان احکامات کے سلسلے میں اس مذکورہ بالا آیت کے بعد ، اگلی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بارے میں احکامات کے موضوع کی تکمیل کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :::
((((( وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْۚ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍۚ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِۚ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْۚ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ:::اور تُم لوگوں میں سے جو شخص اِیمان والی آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ اِیمان والی لونڈیوں سے جو کہ تمہارے قبضے میں ہیں ، اُن سے نکاح کر لے ،اور اللہ تم لوگوں کے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک جیسے ہولہذا ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت لے کر نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ وہ لونڈیاں پاکباز ہوں نہ ہی کھلم کھلا بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ ہی چُھپ چُھپ کر دوستیاں لگانے والی ہوں ،پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو(دی جائے)یہ(لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی)اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے))))) سورت النساء/آیت 25 (25:4)،
اللہ تعالیٰ کے طرف سے ان تمام احکامات میں یہ واضح ہے کہ مسلمان کن عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتا اور ان کے علاوہ باقی سب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے ، حلال ہے ، اس میں کہیں بھی فرسٹ یا کسی اور سٹیپ میں کزنز سے شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ،
اب اگر ہم سورت الاحزاب کی آیت رقم 50 ((((( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ)))))جس کو سمجھنے کے لیے یہ ساری گفتگو ہو رہی ہے ، پر سورت النساء کی مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں غور کریں تو مزید نکھر کر یہ سامنے آتا ہے کہ ان آیات کا حکم سب امتیوں کے لیے برقرار رہا لیکن جن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی اُن میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے ایک خصوصی پابندی عائد فرما دی گئی ،
میں پہلےبھی عرض کر چکا ہوں اور اب پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر سورت الاعراف کی آیت 50((((( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ)))))میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو نکاح کرنے کے لیے مخصوص صفات کی حامل خواتین سے نکاح کی خاص پابندی ہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ ان کے امتی بھی اُن صفات کی عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج تک امت کے علماء اور عامہ سب ہی اس گناہ کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں ، اور کسی کو اس آیت مبارکہ کی سمجھ نہیں آئی اور اب چودہ صدیوں کے بعد ان‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو یہ سمجھ آرہی ہے جن بے چاروں کو اپنی ہی سمجھ نہیں آ پاتی،
کسی مسئلے کے کسی حل پر ، کسی معاملے پر اجماعء اُمت بہت ہی نادر چیز ہے اور یہ مسئلہ ایسے ہی مسائل میں سے ایک ہے ، ہم جانتے ہیں کہ اجماع امت حق کی دلیل ہے کیونکہ ہم اس کی خبر صادق المصدوق نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرما رکھی ہے، سنت مبارکہ سے بغض رکھنے والے بیمار اذہان اور قلوب کو ایسی باتیں گوارہ نہیں ہوتیں ، لہذا یہ ان کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں ،
((((( إنَّ اللهَ قد أجارَ أُمتي أن تَجتَمع عَلىٰ ضَلالةِ::: بے شک اللہ نے میری اُمت کو اس بات سے بچا لیا ہے کہ وہ کسی گمراہی پر اجماع کر لے)))))السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 1331،
میری گذارش ہے کہ جو کویہ بھی سورت الاعراف کی آیت 50((((( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ)))))کی """ خلاف ء قران """ اور """ خلاف حقیقت""" تفیسر کیے بیٹھے ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ میں سے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال میں سے ، اُمت کے ائمہ کرام اور عُلماء کرام رحمہم اللہ میں سے کسی کا کہیں سے تو کوئی ایسا قول یا فعل لے آئیں جو اُس شخص کی تائید کا کوئی پہلو رکھتا ہو، اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے اور اِن شاء اللہ کبھی نہ کر سکیں گا تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اُس کی ذاتی سوچ ترجموں کی محتاج اور ترجموں کو بھی غلط طور پر سمجھ کر بننے والی سوچ کی بنا پر گھڑے گئے مفاہیم کی کسی اِیمان والے کے ہاں کوئی عزت و وقعت نہیں ہو سکتی ، اِن شاء اللہ ،
میں نے اُس شخص کی """ خلافء قران قران فہمی """کی حقیقت قران پاک کی آیات کی روشنی میں ہی واضح کر دی ہے ، وللہ الحمد والمنۃ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::::: اُس شخص نے پاک نیٹ پر[[[ مراسلہ رقم ۵۷ ]]] اپنے‘‘‘ خلافء قران ’’’ فلسفوں کو ایک اور ‘‘‘منطقی پھیلاو ’’’ کی تلبیس چڑھاتے ہوئے، سُورت النساء کی مذکورہ بالا آیات مبارکہ رقم 22 اور 23 کو بھی اپنے مذموم مقصد کے لیے اِستعما ل کیا ہے ، اور اُم ھانی رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نکاح نہ کرنے کا بھی ذِکر کیا ہے ،
میں یہاں قصداً ، اِن دونوں نکات کا جواب فی الحال نہیں دے رہا ،
کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص یا اُس کا کوئی بھی ہم خیال ، اِسلامی علوم میں مقبول دلائل کے مطابق پہلے میرے سوالات کے جوابات دے ، پھر ان شاء اللہ ان فلسفوں کا جواب بھی دوں گا ،
ایک دفعہ پھر اپنے اللہ القوی القدیر پر توکل کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ یہ لوگ کبھی بھی اِسلامی علوم میں مقبول دلائل کے مطابق میرے سوالات کے جوابات نہیں دے سکیں گے ، اور یہ ہی ان لوگوں کی نام نہاد قران فہمی کے خلاف قران ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے ، وللہ الحمد الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ، میں اُس شخص سے اور جو کوئی بھی اِس موضوع پر اُس شخص کا ہم خیال ہو ، اُن سب سے ہی گذارش کرتا ہوں کہ قران کریم سے ہی اپنے فلسفے کی اگر کوئی ایسی دلیل رکھتے ہوں جو قران فہمی کے لیے اللہ کے مقرر کردہ طریقوں کے مطابق ہو تو جواب عنایت فرمائیں ، فلسفیانہ اور لفظی چکروں والی باتیں کر کے اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں ،
اور اپنی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے میرے طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات عنایت کردیں ، جو کہ اِن شاء اللہ آپ صاحبان نہیں دیے سکیں گے ،
اور انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ میرے اِس تھریڈ کو اپنی خصوصی نگرانی میں رکھیے ، اور جو کوئی مراسلہ بھی موضوع سے خارج ہو، اور میرے سوالات کے جوابات کے بغیر شروع کیا جائے ، اور صرف کاپی پیسٹ نما مواد پر مشتمل ہو، اور اُن ہی باتوں کی تکرار ہو جن کا جواب ہو چکا تو ایسے ہر مراسلے کو حذف کر دیا جائے تا کہ قارئین کرام کے لیے یہ موضوع صاف ستھری حالت میں میسر رہے ، اور اِن شاء اللہ سب قارئین کے لیے حق سمجھنے کا سبب رہ سکے ، نہ کہ بے ڈھب اور لا تعلق قسم کے مراسلات سے مکدر ہو کر بیزاری کا اور حق سے دُور رہنے کا سبب ہو ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، یہاں تک میری بات مکمل ہوئی ، قارئین کرام میں سے جنہوں نے میری گذارش کو شرف قبولیت دیتے ہوئے اپنے مراسلات روکے اُن کے لیے دعا گو ہوں کہ جزاک اللہ خیرا، و السلام علیکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ عادل سہیل بھائی۔
اللہ تعالٰی سےدعا ہے کہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی عادل ۔ سہیل
اس حدیث مبارکہ کے آخری جملے کے عربی اردو ترجمے پر کچھ اشکال پیدا ہوتا ہے ۔
براہ مہربانی توجہ سے نوازیں ۔
جزاک اللہ خیراء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((​
هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا
:::​
وہ لوگ ہماری جِلد (یعنی ہماری اُمت )میں سے ہوں گے، اور ہماری ہی زبانوں میں بات کرتے ہوں گے)))))،​
میں نے پھر عرض کی​
‘‘‘​
فَمَا تَأْمُرُنِى إِنْ أَدْرَكَنِى ذَلِكَ ؟
:::​
اگر مجھے یہ کچھ ملے تو آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ؟’’’،​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((​
تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ
:::​
(اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے جُڑے رہو )))))،​
میں نے پھر عرض کی​
‘‘‘​
فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟
:::​
اور اگر مُسلمانوں کی کوئی جماعت بھی ہو ، اور نہ ہی کوئی اِمام ہو تو ؟’’’،​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((​
فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ
:::​
(اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے جُڑے رہو)))))​
 
محترم بھائی عادل ۔ سہیل
اس حدیث مبارکہ کے آخری جملے کے عربی اردو ترجمے پر کچھ اشکال پیدا ہوتا ہے ۔
براہ مہربانی توجہ سے نوازیں ۔
جزاک اللہ خیراء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((​

هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا

:::​
وہ لوگ ہماری جِلد (یعنی ہماری اُمت )میں سے ہوں گے، اور ہماری ہی زبانوں میں بات کرتے ہوں گے)))))،​
میں نے پھر عرض کی​
‘‘‘​

فَمَا تَأْمُرُنِى إِنْ أَدْرَكَنِى ذَلِكَ ؟

:::​
اگر مجھے یہ کچھ ملے تو آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ؟’’’،​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((​

تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ

:::​
(اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے جُڑے رہو )))))،​
میں نے پھر عرض کی​
‘‘‘​

فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟

:::​
اور اگر مُسلمانوں کی کوئی جماعت بھی ہو ، اور نہ ہی کوئی اِمام ہو تو ؟’’’،​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا​
(((((

فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ

:::
(اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے جُڑے رہو)))))
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ کل خیرا ، بھائی نایاب صاحب ، بہت بہت شکریہ ،
اللہ تعالیٰ میری یہ کوتاہی معاف فرمائے ،
میں چونکہ اپنے سارے مضامین ورڈ میں لکھنے کے بعد فورمز میں ارسال کرتا ہوں ، اِس لیے وہاں سے یہاں لاتے ہوئے ایسی کوتاہی واقع ہو گئی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو میری اس کوتاہی کی نشاندہی کرنےپر بہترین اجر عطا فرمائے ، اور مجھے آپ کی طرح توجہ سے مطالعہ کرنے والے بھائی اور بہن عطا فرمائے ،
حدیث شریف کا یہ آخری فقرہ بمع ترجمہ یوں ہو گا :::
(((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
میں چونکہ اب اُس مراسلے کی تدوین نہیں کر سکتا ، لہذا صاحب اختیار بھائیوں سے گذارش ہے کہ یہ مذکورہ بالا ترجمہ پہلے مراسلے میں اس کی مطلوبہ جگہ پر بھی لگا دیں ، جزاکم اللہ خیرا،
بھائی نایاب ایک دفعہ پھر آپ کے لیے دعا گو ہوں اور شکریہ بھی ادا کرتا ہوں ، والسلام علیکم ۔
 
آپ پر سدا سلامتی ہو
جزاک اللہ خیراء محترم بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اس سے زیادہ اور بہتر عطاء فرمائے جس کی دعا آپ نے میرے لیے فرمائی ، نایاب بھائی ، اپنی دعاوں میں یاد رکھا کیجیے ، جزاک اللہ خیرا ، والسلام علیکم۔
 
،وہاں اپنی غلطیوں کے واضح ہوچکنے کے بعد اب تقریبا 25 ماہ کے بعد وہ بندہ اپنی وہی خلاف قران ، قران فہمی اٹھائے یہاں اُردُو مجلس میں بھی چلا آیا ،لیکن اِس دفعہ اُس نے ایک پینترا بدل رکھا ہے ، اور وہ یہ کہ اس دفعہ اُس نے صرف‘‘‘ کزنز ’’’سے شادی کو حرام کہنے کی بجائے‘‘‘ فرسٹ کزنز ’’’ کی بات کی ہے ، میں اپنے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بے عیب کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید کرتا ہوں کہ اُس شخص کے فتوے میں یہ تبدیلی میری اور اُس کی وہ سابقہ بات چیت ہی ہے، جِس کا میں نے ابھی ذِکر کیا،
محفل ، مجلس پر میں نے خان صاحب کو نہیں دیکھا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ کل خیرا ، بھائی نایاب صاحب ، بہت بہت شکریہ ،
اللہ تعالیٰ میری یہ کوتاہی معاف فرمائے ،
میں چونکہ اپنے سارے مضامین ورڈ میں لکھنے کے بعد فورمز میں ارسال کرتا ہوں ، اِس لیے وہاں سے یہاں لاتے ہوئے ایسی کوتاہی واقع ہو گئی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو میری اس کوتاہی کی نشاندہی کرنےپر بہترین اجر عطا فرمائے ، اور مجھے آپ کی طرح توجہ سے مطالعہ کرنے والے بھائی اور بہن عطا فرمائے ،
حدیث شریف کا یہ آخری فقرہ بمع ترجمہ یوں ہو گا :::
(((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
میں چونکہ اب اُس مراسلے کی تدوین نہیں کر سکتا ، لہذا صاحب اختیار بھائیوں سے گذارش ہے کہ یہ مذکورہ بالا ترجمہ پہلے مراسلے میں اس کی مطلوبہ جگہ پر بھی لگا دیں ، جزاکم اللہ خیرا،
بھائی نایاب ایک دفعہ پھر آپ کے لیے دعا گو ہوں اور شکریہ بھی ادا کرتا ہوں ، والسلام علیکم ۔
عادل بھائی نایاب بھائی میں نے تدوین کر دی ہے۔ ایک نظر دیکھ لیں۔
 
اگر منتظم اعلی نستعلیق میں تبدیل کر سکتے ہیں تو نوازش ہوگی۔ اگر نہیں تو۔ میں عادل بھائی سے درخواست کروںگا کہ۔ یہاں سے کوئی جملہ کاپی کرلیں اور ورڈ میں پیسٹ کر دیں۔ اس کے بعد اپنی تحریر لکھیں اور یہاں سے کاپی کی گئی تحریر کا فارمیٹ اپلائی کردیں۔ آپ کی تحریر نستعلیق میں ہو جائے گی اور ہمارے لیے آسانی رہے گی۔آپ کی تحریرپڑھنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔
 
اگر منتظم اعلی نستعلیق میں تبدیل کر سکتے ہیں تو نوازش ہوگی۔ اگر نہیں تو۔ میں عادل بھائی سے درخواست کروںگا کہ۔ یہاں سے کوئی جملہ کاپی کرلیں اور ورڈ میں پیسٹ کر دیں۔ اس کے بعد اپنی تحریر لکھیں اور یہاں سے کاپی کی گئی تحریر کا فارمیٹ اپلائی کردیں۔ آپ کی تحریر نستعلیق میں ہو جائے گی اور ہمارے لیے آسانی رہے گی۔آپ کی تحریرپڑھنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائی ، میرے سارے ہی مضامین اور مراسلات میں اردو عبارات نستعلیق خط میں ہی ہوتے ہیں ، میرے پی سی میں ان کی ساری اردو اور عربی عبارات درست دکھائی دیتی ہیں ، کیونکہ میرے پی سی میں وہ سب ہی فونٹس انسٹالڈ ہیں جو میں استعمال کرتا ہوں، اور وہ فونٹ بھی جو محفل کے سسٹم میں ڈیفالٹ فونٹ ہے
اس پیغام کے ساتھ دو عدد سکرین شاٹس نتھی کر رہا ہوں جو اس بات کی گواہی ہیں کہ فونٹس کی موجودگی میں سب عبارات درست دکھائی دیتی ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
357gk8o.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
142akj8.jpg

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی پی سی میں یہ مراسلات ٹھیک سے دکھائی نہ دینے کا سب ان فونٹس کا اُس پی سی میں انسٹال نہ ہونا ہی ہوسکتا ہے ،
میں جو فونٹس استعمال کرتا ہوں ان سب کو ڈاون لوڈ کر کے اپنے پی سی میں انسٹال کر لیجیے ، ان شاء اللہ ایک دفعہ کی محنت کے بعد یہ مشکل حل ہو جائے گی ، اُن فونٹس کو ڈاون لوڈ کرنے کا لنک میں نے """http://www.urduweb.org/mehfil/threa...کی-اِقسام-،-اللہ-کے-ساتھ-ہونے-کے-طریقے.57440/ """ کے آغاز میں دِیا ہے ، و السلام علیکم۔
 
Top