عادل ـ سہیل
محفلین
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
اللہ تبارک وتعالیٰ کی سُنّت میں سے ہے کہ اللہ اپنے دِین کے خِلاف کام کرنے والوں کو مہلت دیتا ہے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ ہی کے دِین کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں ، اوراُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو کتاب و سُنّت کا جھنڈا اٹھائے ہوتے ہیں ، لیکن نہ کتاب اللہ کی موافقت رکھتے ہیں ، اور نہ ہی سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، اور اکثر ایسے ہوتے ہیں جو صِرف اللہ کی کتاب کا نام لے کر اُسی کتاب سے دُور لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ، اور اِس کوشش میں اُن کا سب سے بڑا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری تعلیمات ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ تعلیمات ہی اللہ کی کتاب کی درست اور یقینی شرح اور تفسیر ہیں ، اور ان کو چھوڑ کر کتاب اللہ کی معنوی تحریف بہت آسان ہے ، اس لیے یہ لوگ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری سُنّت مبارکہ پر ہی اعتراضات کرتے ہیں ، اور بسا اوقات اُس کا انکار ہی کر دیتے ہیں ،
اِن بہروپیوں کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کروا رکھی ہے ، اور بڑی ہی وضاحت سے کروا رکھی ہے ،
آیے آگے چلنے سے پہلے اُس خبر کا مطالعہ کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
رسول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ :::
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ‘‘‘ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنِ الْخَيْرِ ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِى :::لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے اور میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شرّ کے بارے میں سوال کیا کرتا ، اِس ڈر سے کہ کہیں وہ شرّ مجھے قابو نہ کرلے (اور میں اُسے جانتا سمجھتا ہی نہ ہوں )’’’،
پس میں نے سوال عرض کیا ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِى جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: اے اللہ کے رسول ، ہم لوگ جہالت اور شرّ میں تھے ، تو اللہ ہمارےپاس یہ (دِین اِسلام کی)خیر لے کر آیا ، تو کیا اِس خیر کے بعد بھی کوئی شرّہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ :::جی ہاں)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ ، وَفِيهِ دَخَنٌ :::جی ہاں،(خیر تو ہے، لیکن) اور اُس (خیر)میں دُھندلا پن ہے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَمَا دَخَنُهُ ؟::: اور اُس کا دھندلا پن کیا ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ::: (اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ جو میری(دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: تو کیا پھر اُس خیر کے بعد کوئی اور شرّ ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا ::: جی ہاں ، ایسے داعی (اِسلام کی تبلیغ کرنے والے)جو جہنم کے دروازوں پر (کھڑے) ہوں گے ، جو کوئی اُن کی(مان کر اُن کی) طرف جائے گا ، اُسے جہنم میں ڈبو دیں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا::: اے اللہ کے رسول ، ہمارے لیے اُن کی نشانیاں بیان فرما دیجیے ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا:::وہ لوگ ہماری جِلد (یعنی ہماری اُمت )میں سے ہوں گے، اور ہماری ہی زبانوں میں بات کرتے ہوں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَمَا تَأْمُرُنِى إِنْ أَدْرَكَنِى ذَلِكَ ؟::: اگر مجھے یہ کچھ ملے تو آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟::: اور اگر مُسلمانوں کی کوئی جماعت بھی ہو ، اور نہ ہی کوئی اِمام ہو تو ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
صحیح بخاری شریف/حدیث /3606کتاب المناقب/باب 25،،،
صحیح بخاری شریف /حدیث /7084کتاب الفتن/باب11،،،
صحیح مسلم شریف/حدیث/4890کتاب الإِمارۃ/باب 13،،،
صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں جو کہ مزید وضاحت کرنے والے اور فیصلہ کن ہیں کہ (((((قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِی وَ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ :::(اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ (ہوں گے)جو میری سُنّت کے علاوہ سُنتیں اپنائیں گے ، اور میری (دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
::::::: ایک خاص نکتہ :::::: خیال رہے کہ اِس حدیث شریف میں سے کسی ایک خاص جماعت ، اور جماعت سازی کی کوئی دلیل نہیں ، اس کے بارے میں بات الگ موضوع ہے ، اِس لیے اس کو یہاں شامل نہیں کر رہا ہوں۔
حدیث شریف میں بیان شدہ یہ بہروپیے جو کہ اِسلام کی جِلد میں ہیں ، ہم مسلمانوں کی ہی صِفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، اور ہم مسلمانوں کی ہی زبانوں میں بات کرتے ہیں ، یعنی دِین ، اِسلام ، قران اور اِیمان کا نام لے لے کر بات کرتے ہیں ، لیکن اِن کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو مذکور بالا حدیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیان کروائی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی سُنّت کے مطابق اپنے اِیمان والے بندوں میں سے کچھ بندوں سے اُن بہروپیوں کا اصل روپ دِکھانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جسے اللہ اپنے دِین کی کسی خدمت کے لیے استعمال کرے وہ محض اللہ کا ہی کرم ہوتا ہے نہ کہ اُس بندے کا کوئی کمال ،
ہم اپنے اس دور میں ، اور اپنے اس دور میں بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے پبلک میڈیا ، انٹر نیٹ پر بھی ایسے لوگوں کی کاروائیاں دیکھتے رہتے ہیں ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب کریم قران حکیم کا نام لیتے ہیں ، اور اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کی کوشش کے لیے اُس کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہیں ،
اور آیات کریمہ کے کچھ ایسے مفاہیم سامنے لاتے ہیں جو قران کریم کے نزول سے لے کر اِن لوگوں کے مذھب کے ظہور تک کسی نے بھی ظاہر نہیں کیے ، کیونکہ اُن آیات مبارکہ کے وہ مفاہیم جو یہ لوگ پیش کرتے ہیں ہی نہیں ،
ان ہی لوگوں میں سے کچھ کے ساتھ بہت سے موضوعات پر میری کافی عرصہ تک بات چیت ہوتی رہی ،جس کے آغاز میں ، میں ان لوگوں کو ایک مسلمان بھائی کے لیے واجب الادا ء احترام کے ساتھ پیش آتا رہا ، لیکن جب ان لوگوں کی طرف سے اُمت کے تمام ہی أئمہ اور علماء پر طعن اور الزام تراشیاں ہوتی ہی رہی ،اور بڑھتے بڑھتے وہ لوگ ایسی باتیں کرنے لگے جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ جلّ و علا تک پر الزام تھیں ، تو میں نے ان سے بطور بھائی بات کرنا ترک کردیا اور ان سے بات کرتے ہوئے میرے لب و لہجے میں ترشی رہنے لگی ، لیکن الحمد للہ ، جس نے مجھے اسلامی آداب کی حدود سے نکلنے سے روکا رکھا ،
یہ سب تعارفی تمہید میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہاں اِس مضمون میں بھی میں ایک ایسے ہی شخص کی ایک ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کی ایک بدترین مثال کا جائزہ پیش کرنے والا ہوں ،
وہ شخص چند تراجم کا سطحی سا مطالعہ کرکے ، صحیح ثابت شدہ احادیث کا انکار کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین مبارکہ کو اُن کے مقام سے ہٹا کر ان میں معنوی تحریف کرنے والا بھی ہے ،
اور اپنے علاوہ ساری ہی اُمت کو بلا لحاظ و بلا تمیز گناہ گار اور بے ایمان کہنے والا ہے ،
اور کئی مقامات پر تو ایسی باتیں لکھ چکا ہے جواللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر الزام اور اعتراض کی صُورت ہیں ، اور کچھ ایسا ہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بھی کر چکا ہے ،
لہذا میں اپنے تمام محترم قارئین بھائیوں اور بہنوں سے بشمول ناظمین حضرات سے پیشگی گذارش کرتا ہوں کہ اگر میرے الفاظ میں کچھ سختی پائیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ، اللہ کے کلام میں معنوی تحریف کرنے والوں اور اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کا انکار کرنے والوں ، اور اس پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ ثابت ہوتا ہے کہ نہیں ،
قارئین کرام ، اُس شخص نے اپنی اسی ترجمہ زدہ جہالت کی بنا پر نے نزول قران سے لے کر آج تک سارے ہی مسلمانوں میں متفق معاملے کو حرام قرار دیا اوروہ معاملہ ہے ‘‘‘‘‘ فرسٹ کزنز کے ساتھ شادی ’’’’’،
اُس شخص کے کہنے کے مطابق یہ شادی حرام ہے ، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی جتنی شادیاں ہو چکیں اُن کے نتیجے میں میاں بیوی بننے والے جوڑے حرام کاری کرتے رہے اور ان کی اولادیں حرام کی ہوئیں اورجو جوڑے ابھی موجود ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں اور ان کی اولادیں بھی اسی طرح کی ہیں ، اور جتنے جوڑے اس طرح کے ہوں گے وہ حرام کار ہوں گے اور ان کی اولادیں حرامی ہوں گی ،
مبارک ہو مسلمانو، اس نئے جہالت زدہ فتوے کے مطابق ذرا دیکھیے تو ہم میں سے کتنے حلال زادے ہیں ؟؟؟
اللہ ہی بہتر جانے کہ ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے شکار کے اپنوں میں سے کتنے اُس کے فتوے کی زد میں آ کر حرام کاری کر نے والے تھے اور ہیں ؟؟؟
اس کے فتوے کی مار صرف مجھ یا آپ تک ہی نہیں ہوتی قارئین کرام ، بلکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہوتی ہوئی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچتی ہے ، کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں اس قدر تسلسل اور تکرار کے ساتھ حرام کاری ہوتی چلی آرہی ہے اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے روکا اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گناہ مسلسل کو ، اور حرام کی اولادوں سے بننے والے معاشرے کو بننے اور پنپنے سے روکا ، تو اب کیا چودہ سو 33 سال بعد اللہ کے دین اور مسلمانوں کے سب سے بڑے اور کھلے دشمن کی گود میں بیٹھ کر ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کے مریض کو کیا نئی وحی نازل ہوئی ہے ؟؟؟
وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اِس درج ذیل فرمان مبارک کو اپنی ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے زعم میں ، اِس فرمان شریف کی معنوی تحریف کرتا ہے :::
(((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَاخَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَقَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا :::اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں،اور وہ بھی حلال کر دی گئیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں عطاء فرمائیں ،اور آپ کے چچا وتایا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز) جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ، اور (کوئی )اِیمان والی عورت اگر اپنا آپ نبی کے سُپرد کرے ، (اور)اگر نبی اُس ایمان والی عورت سے نکاح کرنے کی نیت رکھیں (تو اے نبی وہ عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے، یہ( اجازت)صِرف آپ کے لیے ہے ، یقیناً ہم اُس کا علم رکھتے ہیں جوکچھ ہم نے لوگوں پر اُن کی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے ، (اور ہم نے یہ اس لیے کیاہے )تا کہ (اے محمد)آپ پر کوئی حرج نہ رہے ، اور بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الاحزاب (33) /آیت 50 ،
اس آیت مبارکہ کو استعمال کرتے ہوئے اُس شخص نے جو کچھ کہا اُس کا حاصل کلام یہ ہی ہے کہ کزنز کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی گئی تھی ، اور وہ بھی اُ ن کزنز کے ساتھ جنہوں نے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی،
اس موضوع پر میری اُس شخص سے کچھ بات چیت ستمبر 2010 میں ، پاک نیٹ پر ہوئی ،
اس کا ربط درج ذیل ہے :::
خاندان میں آپس کی شادیوں کے نتائج - صفحہ 3 - پاکستان کی آواز
وہاں اُس شخص کی ‘‘‘خود ساختہ خلاف قران ، قران فہمی’’’ کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح واضح کروایا ، یہ آپ صاحبان وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ،
اب مجھے خبر ہوئی کہ پاک نیٹ پر کہ جہاں اُس کی غلطیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی ہی وضاحت اور براھین کے ساتھ واشگاف کروایا ہے ،وہاں اپنی غلطیوں کے واضح ہوچکنے کے بعد اب تقریبا 25 ماہ کے بعد وہ بندہ اپنی وہی خلاف قران ، قران فہمی اٹھائے یہاں اُردُو مجلس میں بھی چلا آیا ،لیکن اِس دفعہ اُس نے ایک پینترا بدل رکھا ہے ، اور وہ یہ کہ اس دفعہ اُس نے صرف‘‘‘ کزنز ’’’سے شادی کو حرام کہنے کی بجائے‘‘‘ فرسٹ کزنز ’’’ کی بات کی ہے ، میں اپنے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بے عیب کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید کرتا ہوں کہ اُس شخص کے فتوے میں یہ تبدیلی میری اور اُس کی وہ سابقہ بات چیت ہی ہے، جِس کا میں نے ابھی ذِکر کیا،
قارئین کرام ، میں یہاں اُس شخص کی لکھی ہوئی معنوی تحریفات کو نقل نہیں کر رہا ہوں، اُس نے جو کچھ کہا وہ آپ صاحبان ذکر شدہ ربط پر پڑھ سکتے ہیں ،
میں اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ، اُس کے لکھے ہوئے ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ پر مبنی فتوے اور باتوں کا بطلان ، اللہ سُبحانہ و تعالیٰ ، اُس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال میں سے صحیح تاریخی روایات کے مطابق ثابت کروں گا ،
سب سے پہلے تو اِن شاء اللہ میں یہاں سُورت الاحزاب کی آیت رقم 50 کو بمعہ ترجمہ ، اوربالکل مختصر سی استفساری شرح کے انداز میں ذِکر کرتا ہوں ، اور اس میں کچھ ایسے سوالات بھی شامل کروں گا جن کے جواب ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہموں ’’’ کی طرف سے درکار ہیں ، اور اللہ القوی القدیر پر توکل کرتے ہوئے اور اُسی کے دکھائے ہوئے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہوں کہ اُن لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی اِسلامی علم میں سے مقبول علمی دلیل، اور اِسلامی آداب واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے ، جواب نہیں دے سکتا ، ایسا جواب جو اُس کی اپنی ہی باتوں کی تردید نہ ہو،
عزت مآب قارئین بھائیو، بہنو، اِن شاء اللہ ، جو سوالات میں شامل کرنے والا ہوں ، اُن کے جوابات اِن ‘‘‘خِلاف ء قران ، قران فہموں ’’’ کی ، جہالت ،گمراہی ، قران دُشمنی ، صاحبء قران صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم و فداہُ کل ما رزقنی اللہ سے دُشمنی جِس کا سلسلہ اللہ جلّ جلالہُ تک جا پہنچتا ہے ، اُس دُشمنی کو واضح کرنے والے ہوں گے ، اِن شاء اللہ ، و باذنہ الذی يُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ۔
قارئیں کرام ، آیت اللہ جلّ و علا کے فرمان میں تدبر کرتے ہیں ، اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ ::: اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں)))))
قارئین کرام ، آیت مبارکہ کے ابتدائی حصے میں اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے ایک خبر عطاء فرمائی ہے ، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب فرما کر ،ایک رشتہ داری بنانے کو ، ایک رشتہ کو اُن کے لیے حلال ہونے کی خبر عطاء فرمائی ہے ، جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحت مند اور درست فہم عطاء فرما رکھا ہو اُسے اللہ پاک کا یہ مذکورہ بالا فرمان سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں ہوتا ،
لیکن ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے ڈسے ہوئے لوگوں نے جو ‘‘‘ خلافء قران ’’’فلسفہ بنایا ، اُسی فلسفے کے مطابق میں اُن لوگوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ :::
***1*** اِس آیت کریمہ کے مطابق یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس دو قسم کی بیویاں تھیں ،(1) ایک تو وہ جن کو مہر ادا کیا گیا تھا ، اور (2) دوسری وہ جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا ،،،معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ،،،کیا تُم لوگوں کے گھڑے ہوئے ، یا اختیار کردہ فلسفے کے مطابق یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اِس آیت مبارکہ کے نزول سے پہلے وہ دونوں ہی قِسم کی بیویاں حلال نہ تھیں ؟؟؟؟؟؟؟لہذا ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اِس آیت مبارکہ میں یہ فرما کر کہ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وہ بیویاں تو حلال کر دیں جنہیں مہر ادا کیا گیا تھا، اور جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا وہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حلال نہیں ہوئیں ؟؟؟؟؟؟؟ کیونکہ اُن کو حلال قرار دیے جانے کا تو اِس آیت کریمہ میں کہیں ذِکر ہی نہیں فرمایا گیا !!!!!!!،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
میری بات جاری ہے ، لہذا سب ہی محترم قارئین سے گذارش ہے کہ اپنی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے میری بات مکمل ہونے کا انتظار فرمائیں ، اِن شاء اللہ ایک دو دن میں میری بات مکمل ہو جائے گی ،
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ کہ موضوع کے تسلسل اور یکسوئیت کو برقرار رکھنےکےلیے درمیان میں داخل ہونے والے اور موضوع سے ہٹے ہوئے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، جزاکم اللہ خیرا، و السلام علیکم۔
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
اللہ تبارک وتعالیٰ کی سُنّت میں سے ہے کہ اللہ اپنے دِین کے خِلاف کام کرنے والوں کو مہلت دیتا ہے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ ہی کے دِین کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں ، اوراُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو کتاب و سُنّت کا جھنڈا اٹھائے ہوتے ہیں ، لیکن نہ کتاب اللہ کی موافقت رکھتے ہیں ، اور نہ ہی سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، اور اکثر ایسے ہوتے ہیں جو صِرف اللہ کی کتاب کا نام لے کر اُسی کتاب سے دُور لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ، اور اِس کوشش میں اُن کا سب سے بڑا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری تعلیمات ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ تعلیمات ہی اللہ کی کتاب کی درست اور یقینی شرح اور تفسیر ہیں ، اور ان کو چھوڑ کر کتاب اللہ کی معنوی تحریف بہت آسان ہے ، اس لیے یہ لوگ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری سُنّت مبارکہ پر ہی اعتراضات کرتے ہیں ، اور بسا اوقات اُس کا انکار ہی کر دیتے ہیں ،
اِن بہروپیوں کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کروا رکھی ہے ، اور بڑی ہی وضاحت سے کروا رکھی ہے ،
آیے آگے چلنے سے پہلے اُس خبر کا مطالعہ کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
رسول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ :::
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ‘‘‘ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنِ الْخَيْرِ ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِى :::لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے اور میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شرّ کے بارے میں سوال کیا کرتا ، اِس ڈر سے کہ کہیں وہ شرّ مجھے قابو نہ کرلے (اور میں اُسے جانتا سمجھتا ہی نہ ہوں )’’’،
پس میں نے سوال عرض کیا ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِى جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: اے اللہ کے رسول ، ہم لوگ جہالت اور شرّ میں تھے ، تو اللہ ہمارےپاس یہ (دِین اِسلام کی)خیر لے کر آیا ، تو کیا اِس خیر کے بعد بھی کوئی شرّہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ :::جی ہاں)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ ، وَفِيهِ دَخَنٌ :::جی ہاں،(خیر تو ہے، لیکن) اور اُس (خیر)میں دُھندلا پن ہے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘وَمَا دَخَنُهُ ؟::: اور اُس کا دھندلا پن کیا ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ::: (اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ جو میری(دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟::: تو کیا پھر اُس خیر کے بعد کوئی اور شرّ ہے ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا ::: جی ہاں ، ایسے داعی (اِسلام کی تبلیغ کرنے والے)جو جہنم کے دروازوں پر (کھڑے) ہوں گے ، جو کوئی اُن کی(مان کر اُن کی) طرف جائے گا ، اُسے جہنم میں ڈبو دیں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا::: اے اللہ کے رسول ، ہمارے لیے اُن کی نشانیاں بیان فرما دیجیے ’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا:::وہ لوگ ہماری جِلد (یعنی ہماری اُمت )میں سے ہوں گے، اور ہماری ہی زبانوں میں بات کرتے ہوں گے)))))،
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَمَا تَأْمُرُنِى إِنْ أَدْرَكَنِى ذَلِكَ ؟::: اگر مجھے یہ کچھ ملے تو آپ میرے لیے کیا حکم فرماتے ہیں ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
میں نے پھر عرض کی ‘‘‘فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟::: اور اگر مُسلمانوں کی کوئی جماعت بھی ہو ، اور نہ ہی کوئی اِمام ہو تو ؟’’’،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا ، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ::: (اگر تُم ایسے لوگ اور حالات پاؤ تو میرا حکم یہ ہے کہ)تُم اُن تمام فرقوں کو چھوڑ کر (الگ ہو) رہو خواہ اِس طرح رہنے کے لیے تمہیں درخت کی جڑ ہی چبانا پڑے (اور اسی حال میں رہو) یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے، )))))
صحیح بخاری شریف/حدیث /3606کتاب المناقب/باب 25،،،
صحیح بخاری شریف /حدیث /7084کتاب الفتن/باب11،،،
صحیح مسلم شریف/حدیث/4890کتاب الإِمارۃ/باب 13،،،
صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں جو کہ مزید وضاحت کرنے والے اور فیصلہ کن ہیں کہ (((((قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِی وَ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِى تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ :::(اُس کا دھندلا پن) ایسے گروہ (ہوں گے)جو میری سُنّت کے علاوہ سُنتیں اپنائیں گے ، اور میری (دی ہوئی )ہدایت کے بغیر ہدایت دینے کی کوشش کریں گے ، تُم اُن لوگوں میں خیر اور شر دونوں ہی پاؤ گے)))))،
::::::: ایک خاص نکتہ :::::: خیال رہے کہ اِس حدیث شریف میں سے کسی ایک خاص جماعت ، اور جماعت سازی کی کوئی دلیل نہیں ، اس کے بارے میں بات الگ موضوع ہے ، اِس لیے اس کو یہاں شامل نہیں کر رہا ہوں۔
حدیث شریف میں بیان شدہ یہ بہروپیے جو کہ اِسلام کی جِلد میں ہیں ، ہم مسلمانوں کی ہی صِفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، اور ہم مسلمانوں کی ہی زبانوں میں بات کرتے ہیں ، یعنی دِین ، اِسلام ، قران اور اِیمان کا نام لے لے کر بات کرتے ہیں ، لیکن اِن کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو مذکور بالا حدیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیان کروائی ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی سُنّت کے مطابق اپنے اِیمان والے بندوں میں سے کچھ بندوں سے اُن بہروپیوں کا اصل روپ دِکھانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جسے اللہ اپنے دِین کی کسی خدمت کے لیے استعمال کرے وہ محض اللہ کا ہی کرم ہوتا ہے نہ کہ اُس بندے کا کوئی کمال ،
ہم اپنے اس دور میں ، اور اپنے اس دور میں بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے پبلک میڈیا ، انٹر نیٹ پر بھی ایسے لوگوں کی کاروائیاں دیکھتے رہتے ہیں ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب کریم قران حکیم کا نام لیتے ہیں ، اور اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل کی کوشش کے لیے اُس کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہیں ،
اور آیات کریمہ کے کچھ ایسے مفاہیم سامنے لاتے ہیں جو قران کریم کے نزول سے لے کر اِن لوگوں کے مذھب کے ظہور تک کسی نے بھی ظاہر نہیں کیے ، کیونکہ اُن آیات مبارکہ کے وہ مفاہیم جو یہ لوگ پیش کرتے ہیں ہی نہیں ،
ان ہی لوگوں میں سے کچھ کے ساتھ بہت سے موضوعات پر میری کافی عرصہ تک بات چیت ہوتی رہی ،جس کے آغاز میں ، میں ان لوگوں کو ایک مسلمان بھائی کے لیے واجب الادا ء احترام کے ساتھ پیش آتا رہا ، لیکن جب ان لوگوں کی طرف سے اُمت کے تمام ہی أئمہ اور علماء پر طعن اور الزام تراشیاں ہوتی ہی رہی ،اور بڑھتے بڑھتے وہ لوگ ایسی باتیں کرنے لگے جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ جلّ و علا تک پر الزام تھیں ، تو میں نے ان سے بطور بھائی بات کرنا ترک کردیا اور ان سے بات کرتے ہوئے میرے لب و لہجے میں ترشی رہنے لگی ، لیکن الحمد للہ ، جس نے مجھے اسلامی آداب کی حدود سے نکلنے سے روکا رکھا ،
یہ سب تعارفی تمہید میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہاں اِس مضمون میں بھی میں ایک ایسے ہی شخص کی ایک ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کی ایک بدترین مثال کا جائزہ پیش کرنے والا ہوں ،
وہ شخص چند تراجم کا سطحی سا مطالعہ کرکے ، صحیح ثابت شدہ احادیث کا انکار کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین مبارکہ کو اُن کے مقام سے ہٹا کر ان میں معنوی تحریف کرنے والا بھی ہے ،
اور اپنے علاوہ ساری ہی اُمت کو بلا لحاظ و بلا تمیز گناہ گار اور بے ایمان کہنے والا ہے ،
اور کئی مقامات پر تو ایسی باتیں لکھ چکا ہے جواللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر الزام اور اعتراض کی صُورت ہیں ، اور کچھ ایسا ہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بھی کر چکا ہے ،
لہذا میں اپنے تمام محترم قارئین بھائیوں اور بہنوں سے بشمول ناظمین حضرات سے پیشگی گذارش کرتا ہوں کہ اگر میرے الفاظ میں کچھ سختی پائیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ، اللہ کے کلام میں معنوی تحریف کرنے والوں اور اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کا انکار کرنے والوں ، اور اس پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں جو کچھ کہتا ہوں وہ ثابت ہوتا ہے کہ نہیں ،
قارئین کرام ، اُس شخص نے اپنی اسی ترجمہ زدہ جہالت کی بنا پر نے نزول قران سے لے کر آج تک سارے ہی مسلمانوں میں متفق معاملے کو حرام قرار دیا اوروہ معاملہ ہے ‘‘‘‘‘ فرسٹ کزنز کے ساتھ شادی ’’’’’،
اُس شخص کے کہنے کے مطابق یہ شادی حرام ہے ، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی جتنی شادیاں ہو چکیں اُن کے نتیجے میں میاں بیوی بننے والے جوڑے حرام کاری کرتے رہے اور ان کی اولادیں حرام کی ہوئیں اورجو جوڑے ابھی موجود ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں اور ان کی اولادیں بھی اسی طرح کی ہیں ، اور جتنے جوڑے اس طرح کے ہوں گے وہ حرام کار ہوں گے اور ان کی اولادیں حرامی ہوں گی ،
مبارک ہو مسلمانو، اس نئے جہالت زدہ فتوے کے مطابق ذرا دیکھیے تو ہم میں سے کتنے حلال زادے ہیں ؟؟؟
اللہ ہی بہتر جانے کہ ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے شکار کے اپنوں میں سے کتنے اُس کے فتوے کی زد میں آ کر حرام کاری کر نے والے تھے اور ہیں ؟؟؟
اس کے فتوے کی مار صرف مجھ یا آپ تک ہی نہیں ہوتی قارئین کرام ، بلکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہوتی ہوئی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچتی ہے ، کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت میں اس قدر تسلسل اور تکرار کے ساتھ حرام کاری ہوتی چلی آرہی ہے اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے روکا اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گناہ مسلسل کو ، اور حرام کی اولادوں سے بننے والے معاشرے کو بننے اور پنپنے سے روکا ، تو اب کیا چودہ سو 33 سال بعد اللہ کے دین اور مسلمانوں کے سب سے بڑے اور کھلے دشمن کی گود میں بیٹھ کر ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’ کے مریض کو کیا نئی وحی نازل ہوئی ہے ؟؟؟
وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اِس درج ذیل فرمان مبارک کو اپنی ‘‘‘خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے زعم میں ، اِس فرمان شریف کی معنوی تحریف کرتا ہے :::
(((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَاخَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَقَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا :::اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں،اور وہ بھی حلال کر دی گئیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں عطاء فرمائیں ،اور آپ کے چچا وتایا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموؤں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، وہ (کزنز، بلکہ فرسٹ کزنز) جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ، اور (کوئی )اِیمان والی عورت اگر اپنا آپ نبی کے سُپرد کرے ، (اور)اگر نبی اُس ایمان والی عورت سے نکاح کرنے کی نیت رکھیں (تو اے نبی وہ عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے، یہ( اجازت)صِرف آپ کے لیے ہے ، یقیناً ہم اُس کا علم رکھتے ہیں جوکچھ ہم نے لوگوں پر اُن کی بیویوں اور باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے ، (اور ہم نے یہ اس لیے کیاہے )تا کہ (اے محمد)آپ پر کوئی حرج نہ رہے ، اور بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الاحزاب (33) /آیت 50 ،
اس آیت مبارکہ کو استعمال کرتے ہوئے اُس شخص نے جو کچھ کہا اُس کا حاصل کلام یہ ہی ہے کہ کزنز کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی گئی تھی ، اور وہ بھی اُ ن کزنز کے ساتھ جنہوں نے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی،
اس موضوع پر میری اُس شخص سے کچھ بات چیت ستمبر 2010 میں ، پاک نیٹ پر ہوئی ،
اس کا ربط درج ذیل ہے :::
خاندان میں آپس کی شادیوں کے نتائج - صفحہ 3 - پاکستان کی آواز
وہاں اُس شخص کی ‘‘‘خود ساختہ خلاف قران ، قران فہمی’’’ کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح واضح کروایا ، یہ آپ صاحبان وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ،
اب مجھے خبر ہوئی کہ پاک نیٹ پر کہ جہاں اُس کی غلطیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی ہی وضاحت اور براھین کے ساتھ واشگاف کروایا ہے ،وہاں اپنی غلطیوں کے واضح ہوچکنے کے بعد اب تقریبا 25 ماہ کے بعد وہ بندہ اپنی وہی خلاف قران ، قران فہمی اٹھائے یہاں اُردُو مجلس میں بھی چلا آیا ،لیکن اِس دفعہ اُس نے ایک پینترا بدل رکھا ہے ، اور وہ یہ کہ اس دفعہ اُس نے صرف‘‘‘ کزنز ’’’سے شادی کو حرام کہنے کی بجائے‘‘‘ فرسٹ کزنز ’’’ کی بات کی ہے ، میں اپنے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بے عیب کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید کرتا ہوں کہ اُس شخص کے فتوے میں یہ تبدیلی میری اور اُس کی وہ سابقہ بات چیت ہی ہے، جِس کا میں نے ابھی ذِکر کیا،
قارئین کرام ، میں یہاں اُس شخص کی لکھی ہوئی معنوی تحریفات کو نقل نہیں کر رہا ہوں، اُس نے جو کچھ کہا وہ آپ صاحبان ذکر شدہ ربط پر پڑھ سکتے ہیں ،
میں اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ، اُس کے لکھے ہوئے ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہمی ’’’ پر مبنی فتوے اور باتوں کا بطلان ، اللہ سُبحانہ و تعالیٰ ، اُس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال میں سے صحیح تاریخی روایات کے مطابق ثابت کروں گا ،
سب سے پہلے تو اِن شاء اللہ میں یہاں سُورت الاحزاب کی آیت رقم 50 کو بمعہ ترجمہ ، اوربالکل مختصر سی استفساری شرح کے انداز میں ذِکر کرتا ہوں ، اور اس میں کچھ ایسے سوالات بھی شامل کروں گا جن کے جواب ‘‘‘ خلافء قران ، قران فہموں ’’’ کی طرف سے درکار ہیں ، اور اللہ القوی القدیر پر توکل کرتے ہوئے اور اُسی کے دکھائے ہوئے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہوں کہ اُن لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی اِسلامی علم میں سے مقبول علمی دلیل، اور اِسلامی آداب واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے ، جواب نہیں دے سکتا ، ایسا جواب جو اُس کی اپنی ہی باتوں کی تردید نہ ہو،
عزت مآب قارئین بھائیو، بہنو، اِن شاء اللہ ، جو سوالات میں شامل کرنے والا ہوں ، اُن کے جوابات اِن ‘‘‘خِلاف ء قران ، قران فہموں ’’’ کی ، جہالت ،گمراہی ، قران دُشمنی ، صاحبء قران صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم و فداہُ کل ما رزقنی اللہ سے دُشمنی جِس کا سلسلہ اللہ جلّ جلالہُ تک جا پہنچتا ہے ، اُس دُشمنی کو واضح کرنے والے ہوں گے ، اِن شاء اللہ ، و باذنہ الذی يُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ۔
قارئیں کرام ، آیت اللہ جلّ و علا کے فرمان میں تدبر کرتے ہیں ، اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَأَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ ::: اے نبی ، ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کر دِیں جن بیویوں کا آپ مہر ادا کر چکے ہیں)))))
قارئین کرام ، آیت مبارکہ کے ابتدائی حصے میں اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے ایک خبر عطاء فرمائی ہے ، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب فرما کر ،ایک رشتہ داری بنانے کو ، ایک رشتہ کو اُن کے لیے حلال ہونے کی خبر عطاء فرمائی ہے ، جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحت مند اور درست فہم عطاء فرما رکھا ہو اُسے اللہ پاک کا یہ مذکورہ بالا فرمان سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں ہوتا ،
لیکن ‘‘‘ خلاف قران ، قران فہمی ’’’کے ڈسے ہوئے لوگوں نے جو ‘‘‘ خلافء قران ’’’فلسفہ بنایا ، اُسی فلسفے کے مطابق میں اُن لوگوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ :::
***1*** اِس آیت کریمہ کے مطابق یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس دو قسم کی بیویاں تھیں ،(1) ایک تو وہ جن کو مہر ادا کیا گیا تھا ، اور (2) دوسری وہ جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا ،،،معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ،،،کیا تُم لوگوں کے گھڑے ہوئے ، یا اختیار کردہ فلسفے کے مطابق یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اِس آیت مبارکہ کے نزول سے پہلے وہ دونوں ہی قِسم کی بیویاں حلال نہ تھیں ؟؟؟؟؟؟؟لہذا ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اِس آیت مبارکہ میں یہ فرما کر کہ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وہ بیویاں تو حلال کر دیں جنہیں مہر ادا کیا گیا تھا، اور جنہیں مہر ادا نہیں کیا گیا تھا وہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حلال نہیں ہوئیں ؟؟؟؟؟؟؟ کیونکہ اُن کو حلال قرار دیے جانے کا تو اِس آیت کریمہ میں کہیں ذِکر ہی نہیں فرمایا گیا !!!!!!!،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
میری بات جاری ہے ، لہذا سب ہی محترم قارئین سے گذارش ہے کہ اپنی کوئی بات پیش کرنے سے پہلے میری بات مکمل ہونے کا انتظار فرمائیں ، اِن شاء اللہ ایک دو دن میں میری بات مکمل ہو جائے گی ،
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ کہ موضوع کے تسلسل اور یکسوئیت کو برقرار رکھنےکےلیے درمیان میں داخل ہونے والے اور موضوع سے ہٹے ہوئے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، جزاکم اللہ خیرا، و السلام علیکم۔