جوش کسان - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
جھٹپٹے کا نرم رَو دریا، شفق کا اضطراب
کھیتیاں، میدان، خاموشی، غروبِ آفتاب
دشت کے کام و دہن کو، دن کی تلخی سے فراغ
دور، دریا کے کنارے، دھندلے دھندلے سے چراغ
زیرِ لب، ارض و سما میں، باہمی گفت و شنود
مشعلِ گردوں کے بجھ جانے سے اک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی، سورج کے چھپ جانے سے تنگ
سبزۂ افسردہ پر، خواب آفریں ہلکا سا رنگ
خامشی اور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خنکی سے گویا دن کی گرمی کا گِلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرگی میں کھیتیوں کے درمیاں کا فاصلا
خار و خس پر ایک درد انگیز افسانے کی شان
بامِ گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دُوب کی خوشبو میں شبنم کی نمی سے اک سرور
چرخ پر بادل، زمیں پر تتلیاں، سر پر طیور
پارہ پارہ ابر، سرخی، سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں، کھویا ہوا سا آسماں
پتیاں مخمور، کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
یہ سماں، اور اک قوی انسان، یعنی کاشتکار
ارتقا کا پیشوا، تہذیب کا پروردگار
طفلِ باراں، تاجدارِ خاک، امیرِ بوستاں
ماہرِ آئینِ قدرت، ناظمِ بزمِ جہاں
ناظرِ گل، پاسبانِ رنگ و بو، گلشن پناہ
ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارثِ اسرارِ فطرت، فاتحِ امید و بیم
محرمِ آثارِ باراں، واقفِ طبعِ نسیم
صبح کا فرزند، خورشیدِ زر افشاں کا عَلَم
محنتِ پیہم کا 'پیماں'، سخت کوشی کی قسم
جلوۂ قدرت کا شاہد، حسنِ فطرت کا گواہ
ماہ کا دل، مہرِ عالم تاب کا نورِ نگاہ
قلب پر جس کے نمایاں نور و ظلمت کا نظام
منکشف جس کی فراست پر مزاجِ صبح و شام
خون ہے جس کی جوانی کا بہارِ روزگار
جس کے اشکوں پر، فراغت کے تبسم کا مدار
جس کی محنت کا عرَق تیار کرتا ہے شراب
اُڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرور گلاب
قلبِ آہن جس کے نقشِ پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم، تیز کرنوں کا رفیق
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سر پر جگمگاتی ہے کلاہِ آفتاب
لہر کھاتا ہے رگِ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیلِ رنگ و بو
دوڑتی ہے رات کو جس کی نظر افلاک پر
دن کو جس کی انگلیاں رہتی ہیں نبضِ خاک پر
جس کی جاں کاہی سے ٹپکاتی ہے امرت نبضِ خاک
جس کے دم سے لالہ و گل، بن کے اتراتی ہے خاک
سازِ دولت کو عطا کرتی ہے نغمے جس کی آہ!
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روئے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبضِ استقلال میں
لوچ بھر دیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں
جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عزّ و وقار
کرتی ہے دریوزۂ تابش کلاہِ تاجدار
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
جس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی صلابت پر نزاکت کا مدار
جس کے کَس بل پر اکڑتا ہے غرورِ شہریار
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منہ، گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر، بغل میں پھاوڑا، تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی، دوش پر مضبوط ہل
کون ہَل؟ ظلمت شکن قندیلِ بزمِ آب و گِل
قصرِ گلشن کا دریچہ، سینۂ گیتی کا دل
خوش نما شہروں کا بانی، رازِ فطرت کا سراغ
خاندانِ تیغِ جوہردار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شامِ زیرِ ارض کو صبحِ درخشاں کا پیام
ڈوبتا ہے خاک میں جو روح دوڑاتا ہوا
مضمحل ذروں کی موسیقی کو چونکاتا ہوا
جس کے چھو جاتے ہی مثلِ نازنینِ مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلائے زمیں
پردہ ہائے خواب ہو جاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو ہٹا دیتی ہے خاک
جس کی تابش میں درخشانی ہلالِ عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی
جس کا مَس خاشاک میں بُنتا ہے اک چادر مہین
جس کا لوہا مان کر، سونا اگلتی ہے زمین
ہَل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سرخیاں
اور دہقاں سر جھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اُس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جس میں آ جاتی ہے تیزی کھیتیوں کو روند کر
اپنی دولت کو جگر پر تیرِ غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملکِ دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی نہیں تاریکئ حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دھندلے آنسوؤں پر ہے نگاہ
پھر رہا ہے خوں چکاں آنکھوں کے نیچے بار بار
گھر کی ناامید دیوی کا شبابِ سوگوار
سوچتا جاتا ہے کن آنکھوں سے دیکھا جائے گا
بے ردا بیوی کا سر، بچوں کا منہ اترا ہوا
سیم و زر، نان و نمک، آب و غذا، کچھ بھی نہیں
گھر میں اک خاموش ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک دل، اور یہ ہجومِ سوگواری! ہائے ہائے
یہ ستم، اے سنگ دل سرمایہ داری ہائے ہائے
تیری آنکھوں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جن کے آگے خنجرِ چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بے کسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہات
کیا چبا ڈالے گی او کم بخت! ساری کائنات؟
ظلم، اور اتنا! کوئی حد بھی ہے اِس طوفان کی
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم، اے حامئ امن و اماں!
گرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں
ادّعائے پیروئ دین و ایماں، اور تُو!
دیکھ اپنی کہنیاں، جن سے ٹپکتا ہے لہو
ہاں سنبھل جا اب کے زہرے اہلِ دل کے آب ہیں
کتنے طوفاں تیری کشتی کے لیے بے تاب ہیں
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۹ء
 
Top