احسن مرزا
محفلین
کسک اٹھی ہے کہیں دل میں، آ چکی ہو کیا؟
خبر ہماری محبت کی پا چکی ہو کیا؟
نظر میں پہلی سی الفت نہیں دکھائی دی
وہ ایک شام کا وعدہ بھلا چکی ہو کیا؟
شبِ فراق کا غم تھا بہت گراں، لیکن!
وصال کی بھی تمنا مٹا چکی ہو کیا؟
قریبِ منزلِ الفت پلٹ رہی ہو تم
تمام زخمِ مسافت بُھلا چکی ہو کیا؟
لکھا تھا جس پہ محبت سے نام احسن کا
ورق وہ ذات کا اپنی جلا چکی ہو کیا؟