ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک اور پرانی غزل احبابِ محفل کی خدمت میں ! اب کچھ زیادہ کلام نہیں بچا ۔ چند غزلیں اور دو ایک نظمیں اور باقی ہیں جو باری باری آپ کے ذوق کی نذر کرنے کا شرف حاصل کروں گا۔
غزل
کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے
انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے
فصیلیں ساری گرادیں جو درمیان میں تھیں
دلوں کے بیچ کی دیوار ہی گرا نہ سکے
ہزار حرفِ خوش آہنگ تھے بہم لیکن
مزاجِ کلک کی تلخی کبھی چھپا نہ سکے
سبھی کے غم کئے تصویر ہم نے شعروں میں
کسی کے غم کا مداوا مگر بتا نہ سکے
سبھی کو آئنہ توفیق بھر دیا ہم نے
خود اپنے عکس پہ نظریں کبھی جما نہ سکے
دلوں کا حال خدا جانتا ہے خوب ظہیرؔ
خدا گواہ کہ تم ہی کبھی نبھا نہ سکے
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2009
کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے
انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے
فصیلیں ساری گرادیں جو درمیان میں تھیں
دلوں کے بیچ کی دیوار ہی گرا نہ سکے
ہزار حرفِ خوش آہنگ تھے بہم لیکن
مزاجِ کلک کی تلخی کبھی چھپا نہ سکے
سبھی کے غم کئے تصویر ہم نے شعروں میں
کسی کے غم کا مداوا مگر بتا نہ سکے
سبھی کو آئنہ توفیق بھر دیا ہم نے
خود اپنے عکس پہ نظریں کبھی جما نہ سکے
دلوں کا حال خدا جانتا ہے خوب ظہیرؔ
خدا گواہ کہ تم ہی کبھی نبھا نہ سکے
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2009