محمد ریحان قریشی
محفلین
عنایتوں کی نہ غیض و غضب کی بات کرو
شکستِ رنگ کی، بزمِ طرب کی بات کرو
مری سنو تو ترانہ ہے خامشی کا بہت
کسی سے بھی نہ کبھی بستہ لب کی بات کرو
وہ عہدِ رفتہ بھی ترکیبِ شادی و غم تھا
وہ وقت بیت گیا ہے تم اب کی بات کرو
مری خطا کے نہ ہو جاؤ مرتکب تم بھی
کرو ادب سے جو مجھ بے ادب کی بات کرو
کوئی گھڑی ہے کہ ہے ماورائے وجہ و سبب
کسی گھڑی بھی نہ وجہ و سبب کی بات کرو
فسانے روزِ سیہ کے بہت ہوئے ریحان
بس آج کو کسی رخشندہ شب کی بات کرو
شکستِ رنگ کی، بزمِ طرب کی بات کرو
مری سنو تو ترانہ ہے خامشی کا بہت
کسی سے بھی نہ کبھی بستہ لب کی بات کرو
وہ عہدِ رفتہ بھی ترکیبِ شادی و غم تھا
وہ وقت بیت گیا ہے تم اب کی بات کرو
مری خطا کے نہ ہو جاؤ مرتکب تم بھی
کرو ادب سے جو مجھ بے ادب کی بات کرو
کوئی گھڑی ہے کہ ہے ماورائے وجہ و سبب
کسی گھڑی بھی نہ وجہ و سبب کی بات کرو
فسانے روزِ سیہ کے بہت ہوئے ریحان
بس آج کو کسی رخشندہ شب کی بات کرو