کاشفی

محفلین
غزل
(انور مرزا پوری)
کسی صورت بھی نیند آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

اکیلا پا کے مجھ کو یاد اُن کی آ تو جاتی ہے
مگر پھر لوٹ کر جاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

جو خوابوں میں مرے آ کر تسلّی مجھ کو دیتی تھی
وہ صورت اب نظر آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

تمہیں تو ہو شبِ غم میں جو میرا ساتھ دیتے ہو
ستارو تم کو نیند آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

جسے اپنا سمجھنا تھا وہ آنکھ اب اپنی دشمن ہے
کہ یہ رونے سے باز آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

تری تصویر جو ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا تھی
نظر وہ صاف اب آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

گھٹا جو دل سے اُٹھتی ہے مژہ تک آ تو جاتی ہے
مگر آنکھ اس کو برساتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں

ستارے یہ خبر لائے کہ اب وہ بھی پریشاں ہیں
سنا ہے اُن کو نیند آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
 
Top