شکیب
محفلین
بات کچھ یوں ہے کہ ہائی اسکول کے بعد ہی سے ہم نے ایک بحر کی غزلوں کو اکٹھا کر رکھا تھا، جس میں ہر غزل کا ایک مصرع یا اس کا اشارہ ہوتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی نئی غزل کے لیے اگر کوئی طرز ڈھونڈنی ہوتی تو ہم ان میں سے پرانی طرز کو دیکھ کر کسی ایک کو پسند کر لیتے تھے۔ گیارہویں جماعت میں ہمارے ایک عزیز دوست کو غزل سرائی کے مقابلے میں غزل پڑھنی تھی، ہماری غزل اور دھن دونوں طے شدہ تھیں، لیکن انہیں کوئی دھن نہیں سوجھ رہی تھی۔ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ اس غزل کی کوئی اچھی سی دھن بتاؤ۔ مابدولت نے اپنی مذکورہ کاپی نکالی، ان کی غزل کی بحر کو دیکھا، اور پھر انہیں الگ الگ طرز پر ان کی غزل گنگنا کر بتاتے رہے کہ لو پسند کرو کیسی دھن چاہیے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ طرز یا دھن، تمام ہمارے دماغ میں محفوظ ہیں۔ عرصے سے ہم چاہ رہے ہیں کہ اسے تحریرا کسی طرح represent کیا جائے تاکہ ہمارا کلیکشن صرف ہم تک ہی نہ محدود ہو،(اس اسی طرح دوسروں کا کلیکشن بھی ان تک ہی نہ محدود رہ جائے) واضح رہے کہ ہم صوتی طور پر محفوظ(voice recording) نہیں کرنا چاہ رہے۔
اس کے لیے فی الوقت ہمارے ذہن میں انڈین کلاسک میوزک کا سا رے گا ما پا دھا نیsa re ga ma pa dha ni کا آپشن ہے۔ دوسرا آپشن نوکیا کے موبائل میں میوزک کمپوزرمیں استعمال ہونے والی نوٹیشنز notations کا ہے۔ لیکن دونوں میں ہماری دھن کو محفوظ کرنے کے لیے کافی محنت درکار ہوگی یعنی پہلے ان کے میکینزم کو سمجھنا پڑے گا۔
اب آپ حضرات بھی کوئی راہ سجھائیں تاکہ ہماری عرصہ پرانی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ طرز یا دھن، تمام ہمارے دماغ میں محفوظ ہیں۔ عرصے سے ہم چاہ رہے ہیں کہ اسے تحریرا کسی طرح represent کیا جائے تاکہ ہمارا کلیکشن صرف ہم تک ہی نہ محدود ہو،(اس اسی طرح دوسروں کا کلیکشن بھی ان تک ہی نہ محدود رہ جائے) واضح رہے کہ ہم صوتی طور پر محفوظ(voice recording) نہیں کرنا چاہ رہے۔
اس کے لیے فی الوقت ہمارے ذہن میں انڈین کلاسک میوزک کا سا رے گا ما پا دھا نیsa re ga ma pa dha ni کا آپشن ہے۔ دوسرا آپشن نوکیا کے موبائل میں میوزک کمپوزرمیں استعمال ہونے والی نوٹیشنز notations کا ہے۔ لیکن دونوں میں ہماری دھن کو محفوظ کرنے کے لیے کافی محنت درکار ہوگی یعنی پہلے ان کے میکینزم کو سمجھنا پڑے گا۔
اب آپ حضرات بھی کوئی راہ سجھائیں تاکہ ہماری عرصہ پرانی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچے۔