کاشفی
محفلین
غزل
(باقی احمد پوری)
کسی میں دم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے
ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے
کرم کی ایک یہ صورت بھی ہوسکتی ہے، مقتل میں
تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے
نہ میں واعظ، نہ میں زاہد، مریضِ عشق ہوں ساقی!
مجھے کیا عذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے
محبت میں یہ دل آزاریاں اچھی نہیں ہوتیں
جسے دیکھو تری محفل سے وہ باچشمِ نم نکلے
ستاروں سے پرے کوئی، ہمیں آواز دیتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو سائیں وہاں سے بھی صنم نکلے
مری ہر بات پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں وہ باقی
ترا ارمان تو شاید کبھی اگلے جنم نکلے
(باقی احمد پوری)
کسی میں دم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے
ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے
کرم کی ایک یہ صورت بھی ہوسکتی ہے، مقتل میں
تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے
نہ میں واعظ، نہ میں زاہد، مریضِ عشق ہوں ساقی!
مجھے کیا عذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے
محبت میں یہ دل آزاریاں اچھی نہیں ہوتیں
جسے دیکھو تری محفل سے وہ باچشمِ نم نکلے
ستاروں سے پرے کوئی، ہمیں آواز دیتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو سائیں وہاں سے بھی صنم نکلے
مری ہر بات پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں وہ باقی
ترا ارمان تو شاید کبھی اگلے جنم نکلے