مغزل
محفلین
غزل
کسی نظارہ ٔ بیزار سے گراتا ہوں
میں خواب خواب کے معیار سے گراتاہوں
پھر اس کے بدلے مجھے اپنا زخم رکھنا ہے
اگر چراغ کو دیوار سے گراتا ہوں
میں ٹوٹنے کے عمل سے ہوں اس قدر مانوس
کہ خود کو دستِ خریدار سے گراتا ہوں
وہ میرے سامنے تعبیر ہونے لگتا ہے
جو خواب دیدۂ بیدار سے گراتا ہوں
درونِ ذات بناتا ہوں حیرتوں کے خدا
پھر ان خداؤں کو تلوار سے گراتا ہوں
عماد اظہر ،
فیصل آباد
کسی نظارہ ٔ بیزار سے گراتا ہوں
میں خواب خواب کے معیار سے گراتاہوں
پھر اس کے بدلے مجھے اپنا زخم رکھنا ہے
اگر چراغ کو دیوار سے گراتا ہوں
میں ٹوٹنے کے عمل سے ہوں اس قدر مانوس
کہ خود کو دستِ خریدار سے گراتا ہوں
وہ میرے سامنے تعبیر ہونے لگتا ہے
جو خواب دیدۂ بیدار سے گراتا ہوں
درونِ ذات بناتا ہوں حیرتوں کے خدا
پھر ان خداؤں کو تلوار سے گراتا ہوں
عماد اظہر ،
فیصل آباد