کسی نظارہ ٔ بیزار سے گراتا ہوں---------- عماد اظہر

مغزل

محفلین
غزل

کسی نظارہ ٔ بیزار سے گراتا ہوں
میں خواب خواب کے معیار سے گراتاہوں

پھر اس کے بدلے مجھے اپنا زخم رکھنا ہے
اگر چراغ کو دیوار سے گراتا ہوں

میں ٹوٹنے کے عمل سے ہوں اس قدر مانوس
کہ خود کو دستِ خریدار سے گراتا ہوں

وہ میرے سامنے تعبیر ہونے لگتا ہے
جو خواب دیدۂ بیدار سے گراتا ہوں

درونِ ذات بناتا ہوں حیرتوں کے خدا
پھر ان خداؤں کو تلوار سے گراتا ہوں

عماد اظہر ،
فیصل آباد
 
غزل

کسی نظارہ ٔ بیزار سے گراتا ہوں
میں خواب خواب کے معیار سے گراتاہوں

پھر اس کے بدلے مجھے اپنا زخم رکھنا ہے
اگر چراغ کو دیوار سے گراتا ہوں

میں ٹوٹنے کے عمل سے ہوں اس قدر مانوس
کہ خود کو دستِ خریدار سے گراتا ہوں

وہ میرے سامنے تعبیر ہونے لگتا ہے
جو خواب دیدۂ بیدار سے گراتا ہوں

درونِ ذات بناتا ہوں حیرتوں کا خدا
پھر ان خداؤں کو تلوار سے گراتا ہوں

عماد اظہر ،
فیصل آباد

بہت اچھی غزل شیئر کی ہے۔ محمود صاحب بہت شکریہ!
(آخری شعر پر ذہن متفق نہیں‌ہوا کہ پہلے مصرعہ میں ’حیرتوں کا خدا‘ بناتا ہوں یعنی واحد تو دوسرے مصرعے میں ’خداؤں کو تلوار سے گراتا‘ یعنی جمع ہو گئے۔ اگر ’حیرتوں کے خدا‘ بناتا ہوں تو ٹھیک ہے۔)
ایک بار پھر شکریہ شیئر کرنے کے لیے۔
 

مغزل

محفلین
بہت اچھی غزل شیئر کی ہے۔ محمود صاحب بہت شکریہ!
(آخری شعر پر ذہن متفق نہیں‌ہوا کہ پہلے مصرعہ میں ’حیرتوں کا خدا‘ بناتا ہوں یعنی واحد تو دوسرے مصرعے میں ’خداؤں کو تلوار سے گراتا‘ یعنی جمع ہو گئے۔ اگر ’حیرتوں کے خدا‘ بناتا ہوں تو ٹھیک ہے۔)
ایک بار پھر شکریہ شیئر کرنے کے لیے۔

بہت بہت شکریہ شناور صاحب ،
دراصل یہ غزل ہمیں رومن میں موصول ہوئی سو غلطی ہوئی ، آپ کی نشاندہی پر تبدیل کرلیا ہے۔ بہت بہت شکریہ

لاجواب غزل ہے، شکریہ مغل صاحب شیئر کرنے کیلیے!

بہت بہت شکریہ وارث صاحب
 
Top