کسی نے آج یہ پوچھا ہے مجھ سے، میرا کیا ہے وہ

عاطف ملک

محفلین
چند تک بندیاں محفلین کی خدمت میں۔

بشر ہے یا مَلَک ہے، داس ہے یا دیوتا ہے وہ
مجھے اس سے غرض کوئی نہیں ہے، گر مِرا ہے وہ

حسیں، دلکش، پری وش، آئینہ رو، دل رُبا ہے وہ
مری چاہت، تمنا، آرزو، الفت، رضا ہے وہ

مِری سانسوں کی سرگم، دل کی دھڑکن کی صدا ہے وہ
مری خاموشیوں میں گیت بن کر گونجتا ہے وہ

مری رگ رگ میں جب بن کر لہو سا دوڑتا ہے وہ
تو پھر کیونکر کہوں، کیسے کہوں مجھ سے جدا ہے وہ

کہو عاطفؔ کہ چپ رہنے سے اندیشے جنم لیں گے
کسی نے آج یہ پوچھا ہے مجھ سے، میرا کیا ہے وہ

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۲۰
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی غزل ہے عاطف بھائی!
مطلع اول کے دوسرے مصرع میں جو تعقید آگئی ہے وہ مزا کرکرا کررہی ہے ۔ اگر "اس" کے الف کو مکسور کردیں تو کرکراہٹ شاید کچھ کم ہوجائے ۔
 

عاطف ملک

محفلین
اچھی مسلسل غزل ہے عاطف بھائی ۔۔۔ ماشاءاللہ
بہت شکریہ راحل بھیا۔۔۔۔۔حسنِ نظر ہے آپ کا:)
بس مطلع کی بندش مجھے کچھ اتنی چست نہیں لگی۔
شاید۔۔۔۔۔۔لیکن اب شاید یہ بہتر نہ ہو سکے کیونکہ جس کیفیت کے تحت اشعار کہے ہیں وہ شاید ہی دوبارہ طاری ہو سکے:)
مااشاءاللہ
بہت اعلی بھیا
جزاک اللہ عدنان بھائی:)
بہت محبت ہے آپ کی:in-love:
بہت خوب! اچھی غزل ہے عاطف بھائی!
حسنِ نظر ہے آپ کا محترمی:)
مطلع اول کے دوسرے مصرع میں جو تعقید آگئی ہے وہ مزا کرکرا کررہی ہے ۔ اگر "اس" کے الف کو مکسور کردیں تو کرکراہٹ شاید کچھ کم ہوجائے
جی اس تعقید کا احساس مجھے بھی تھا لیکن کچھ بہتر صورت نہ بن سکی۔"اس" کے الف کو مکسور کیے دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top