کسی نے نام لیا یا کہ ذکرِ حور آیا - شور

کاشفی

محفلین
غزل
(شور)

کسی نے نام لیا یا کہ ذکرِ حور آیا
تو سُن کےحُسن پر اپنے اُنہیں غرور آیا

الہٰی جان لے پر دل کو تو سلامت رکھ
یہ کام میرے بُرے وقت میں ضرور آیا

تمہارے کوچہ میں خلق اس قدر ہے کیوں بیتاب
ضرور مجھ سا کوئی وہاں پہ ناصبور آیا

یہ سچ کہا ہے کہ ہوتی ہے دل کو دل سے راہ
ذر ا سی تم نے اگر پی ، مجھے سرور آیا

بنے بنائے وہ پھر مجھ سے ہیں بگڑ بیٹھے
الہٰی کام میں کیوں میرے یہ فتور آیا

نہیں سمجھتے وہ اپنا سا حسن میں ثانی
ہوئے وہ جامہ سے باہر جو نام حور آیا

خدا ہی سمجھے گا اس ضعف و ناتوانی سے
کبھی میں پاس کبھی کارواں سے دور آیا

کریں ہزار خطا اُس نے دشمنوں کی معاف
مگر نظر میں نہ اُس کے میں بے قصور آیا

اُسی کا عکس میرے دل میں بھی پڑا آکر
کہ جس تجلی کا موسٰی کے ہاتھ نور آیا

بہت دنوں سے میں مشتا ق تھا تجلی کا
جو چمکی برق تو سمجھاکہ کوہ طور آیا

جہاں ہے ذوقِ سخن ذکر ہے سخنور کا
تو شور تیرا بھی وہاں نام بالضرور آیا
 
Top