فرخ منظور
لائبریرین
کسی کا دردِ دل پیارے تمہارا ناز کیا سمجھے
جو گزرے صید کے جی پر، اسے شہباز کیا سمجھے
رِہا کرنا ہمیں صیّاد اب پامال کرنا ہے
پھڑکنا بھی جسے بھولا ہو سو پرواز کیا سمجھے
نہ پہنچے داد کو ہرگز ترے کوچے کا فریادی
کسی کے شورِ محشر میں، کوئی آواز کیا سمجھے
نہ پوچھو مجھ سے میرا حال ٹک دنیا میں جینے دو
خدا جانے میں کیا بولوں، کوئی غماز کیا سمجھے
کہا چاہے تھا کچھ تجھ سے میں لیکن دل دھڑکتا ہے
کہ میری بات کے ڈھب کو تو اے طناز کیا سمجھے
جو گزری رات میرے پر کسے معلوم ہے تجھ بن
دلِ پروانہ کا جز شمع کوئی راز کیا سمجھے
نہ پڑھیو یہ غزل سودا تُو ہرگز میر کے آگے
وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا سمجھے
(مرزا رفیع سودا)
جو گزرے صید کے جی پر، اسے شہباز کیا سمجھے
رِہا کرنا ہمیں صیّاد اب پامال کرنا ہے
پھڑکنا بھی جسے بھولا ہو سو پرواز کیا سمجھے
نہ پہنچے داد کو ہرگز ترے کوچے کا فریادی
کسی کے شورِ محشر میں، کوئی آواز کیا سمجھے
نہ پوچھو مجھ سے میرا حال ٹک دنیا میں جینے دو
خدا جانے میں کیا بولوں، کوئی غماز کیا سمجھے
کہا چاہے تھا کچھ تجھ سے میں لیکن دل دھڑکتا ہے
کہ میری بات کے ڈھب کو تو اے طناز کیا سمجھے
جو گزری رات میرے پر کسے معلوم ہے تجھ بن
دلِ پروانہ کا جز شمع کوئی راز کیا سمجھے
نہ پڑھیو یہ غزل سودا تُو ہرگز میر کے آگے
وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا سمجھے
(مرزا رفیع سودا)