کسی کا چاند سا چہرہ خیالوں میں جو رہتا ہے--برائے اصلاح

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
--------------
الف عین
@سیّد عاطف علی
خلیل الرحمن
--------
کسی کا چاند سا چہرہ خیالوں میں جو رہتا ہے
لگا ہے روگ الفت کا زمانہ مجھ سے کہتا ہے
------یا
محبّت ہو گئی تجھ کو مرا دل مجھ سے کہتا ہے
------------
دُکھا ہے دل ،مرا ایسے ،کسی کی بے وفائی سے
مری آنکھوں سے پانی ہے کہ چشمہ بن کے بہتا ہے
-------------
یہ دنیا دیکھنے میں جس قدر معصوم لگتی ہے
نہیں ایسی یہ اندر سے پڑا پردہ ہی رہتا ہے
-------------
کسی نے دل بنایا ہے جزیرہ اک حسینوں کا
مگر وہ سامنے سب کے بنا مومن ہی رہتا ہے
-------------
بنے شیطان کے پیرو خدا کا راستہ چھوڑا
اسی رستے پہ چلتے ہیں جسے ابلیس کہتا ہے
------------
نِفاقِ دل بنی عادت یہی ہوتا ہے دنیا میں
وہ اکثر کر نہیں پاتا جسے انسان کہتا ہے
---------------
بُرا کہتے ہیں اوروں کو بُرائی خود میں ہوتی ہے
انہیں حرکات سے اپنی خدا ناراض رہتا ہے
------------
مسائل حل تبھی ہوں گے اگر رستے کو بدلیں گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
--------------
سکونِ قلب ملتا ہے خدا کے ذکر سے ارشد
بدل جانے کی نیت کر تُو کن سوچوں میں رہتا ہے
------------------
 

الف عین

لائبریرین
ارشد بھائی آپ اپنے اظہار بیان پر غور کر لیا کریں کہ کیا واقعی وہی مطلب نکلتا ہے جو آپ چاہتے ہیں؟
ان اشعار کو دیکھیے

کسی نے دل بنایا ہے جزیرہ اک حسینوں کا
مگر وہ سامنے سب کے بنا مومن ہی رہتا ہے
-------------
مگر وہ.. وہ کون؟ دل یا دل بنانے والا؟ الفاظ سے تو 'وہ' کا تعلق 'کسی' کے ساتھ دتست لگتا ہے

بنے شیطان کے پیرو خدا کا راستہ چھوڑا
اسی رستے پہ چلتے ہیں جسے ابلیس کہتا ہے
----------- شاید مطلب ہے کہ جس راستے پر ابلیس چلنے کا کہتا ہے۔ لیکن الفاظ سے بلکہ لفظ 'جسے' بجائے 'جس رستے پر چلنے کے لیے' سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اسے عجز بیان کہا جائے گا۔
اسی طرح ہر شعر پر غور کر کے اپنی اس عام غلطی پر قابو پانے لی کوشش کریں
 
الف عین
(اصلاح کے بعد )
کسی کا چاند سا چہرہ خیالوں میں جو رہتا ہے
لگا ہے روگ الفت کا زمانہ مجھ سے کہتا ہے
------یا
محبّت ہو گئی تجھ کو مرا دل مجھ سے کہتا ہے
------------
دُکھا ہے دل ،مرا ایسے ،کسی کی بے وفائی سے
مری آنکھوں سے پانی ہے کہ چشمہ بن کے بہتا ہے
-------------
یہ دنیا دیکھنے میں جس قدر معصوم لگتی ہے
نہیں ایسی یہ اندر سے پڑا پردہ ہی رہتا ہے
-------------
کسی نے دل بنایا ہے جزیرہ اک حسینوں کا
بچاؤ دل حسینوں سے مگر لوگوں سے کہتا ہے
-------------
بنے شیطان کے پیرو خدا کا راستہ چھوڑا
بسانا تھا جہاں رب کو وہاں شیطان رہتا ہے
---------
نِفاقِ دل بنی عادت یہی ہوتا ہے دنیا میں
وہ اکثر کر نہیں پاتا جسے انسان کہتا ہے
---------------
بُرا کہتے ہیں اوروں کو بُرائی خود میں ہوتی ہے
انہیں حرکات سے اپنی خدا ناراض رہتا ہے
------------
مسائل حل تبھی ہوں گے اگر رستے کو بدلیں گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
--------------
سکونِ قلب ملتا ہے خدا کے ذکر سے ارشد
بدل جانے کی نیت کر تُو کن سوچوں میں رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کسی کا چاند سا چہرہ خیالوں میں جو رہتا ہے
لگا ہے روگ الفت کا زمانہ مجھ سے کہتا ہے
------یا
محبّت ہو گئی تجھ کو مرا دل مجھ سے کہتا ہے
------------ دوسرا متبادل بہتر ہے، پہلے میں یہ غلطی ہگ کہ زمانے کو آپ کے خیالات کا کیسے پتہ چل جاتا ہے جو وہ یہ کہے!

دُکھا ہے دل ،مرا ایسے ،کسی کی بے وفائی سے
مری آنکھوں سے پانی ہے کہ چشمہ بن کے بہتا ہے
------------- چشمہ تو بہت چھوٹی شے ہے، دریا کہا جائے

یہ دنیا دیکھنے میں جس قدر معصوم لگتی ہے
نہیں ایسی یہ اندر سے پڑا پردہ ہی رہتا ہے
------------- پڑا پردہ اچھا نہیں لگتا، الفاظ بدلیں

کسی نے دل بنایا ہے جزیرہ اک حسینوں کا
بچاؤ دل حسینوں سے مگر لوگوں سے کہتا ہے
------------- یہ بھی وہی بات ہے کہ واضح نہیں کہ کون کہہ رہا ہے ۔ پہلے مصرع کا 'کسی نے' نکال دیں۔ حسینوں کا جزیرہ بھی عجیب ہے

بنے شیطان کے پیرو خدا کا راستہ چھوڑا
بسانا تھا جہاں رب کو وہاں شیطان رہتا ہے
--------- کس سے خطاب ہے؟ واضح نہیں. صیغہ بھی عجیب سا ہے۔ 'وہاں شیطان کو بسَا لیا ہے ہونا تھا

نِفاقِ دل بنی عادت یہی ہوتا ہے دنیا میں
وہ اکثر کر نہیں پاتا جسے انسان کہتا ہے
--------------- واضح. نہیں ہو سکا

بُرا کہتے ہیں اوروں کو بُرائی خود میں ہوتی ہے
انہیں حرکات سے اپنی خدا ناراض رہتا ہے
------------ یہ بیانیہ بھی درست نہیں لگا

مسائل حل تبھی ہوں گے اگر رستے کو بدلیں گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
-------------- یہ شتر گربہ بھی ہو گیا۔ جب خدا کرو، بنو کہتا ہے تو پہلے مصرع میں ضمیر بدلو گے ہونا چاہیے تھا

سکونِ قلب ملتا ہے خدا کے ذکر سے ارشد
بدل جانے کی نیت کر تُو کن سوچوں میں رہتا ہے
... ٹھیک.
 
الف عین
(دوبارا )
کسی کا چاند سا چہرہ خیالوں میں جو رہتا ہے
محبّت ہو گئی تجھ کو مرا دل مجھ سے کہتا ہے
------------
دُکھا ہے دل ،مرا ایسے ،کسی کی بے وفائی سے
مری آنکھوں سے پانی ہے کہ دریا بن کے بہتا ہے
-------------
یہ دنیا دیکھنے میں جس قدر معصوم لگتی ہے
حقیقت جانتا ہے وہ جو اس کے ساتھ رہتا ہے
-------------
بسی دنیا دلوں میں ہے مگر کہتے ہیں مومن ہیں
منافق کی نشانی ہے یہی قرآن کہتا ہے
-------------
دلوں کو پاک رکھنا تھا بسانا تھا وہاں رب کو
ہماری بد نصیبی ہے وہاں شیطان رہتا ہے
------------
نِفاقِ دل بنی عادت یہی حالت ہے اکثر کی
نہیں کرتے جو کرنے کو ہمیں رحمان کہتا ہے
-----------
بُرا کہتے ہیں اوروں کو نظر خود سے چراتے ہیں
-------- یا
بُرائی خود میں ہوتی ہے نہیں ہم دیکھتے جس کو
ہمیشہ دوسروں کو ہی بڑا ،انسان کہتا ہے
------------
مسائل حل تبھی ہوں گے اگر رستے کو بدلو گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
--------------
سکونِ قلب ملتا ہے خدا کے ذکر سے ارشد
بدل جانے کی نیت کر تُو کن سوچوں میں رہتا ہے
... ٹھیک.
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دونوں اشعار درَست، تیسرے کا مفہوم لگتا ہے کہ زبردستی کا اضافہ ہے
بسی دنیا دلوں میں ہے مگر کہتے ہیں مومن ہیں
منافق کی نشانی ہے یہی قرآن کہتا ہے
------------ -اکثر اشعار میں فاعل کون ہے، یہ صرف آپ کے ذہن میں ہوتا ہے، بیان نہیں ہوتا، یہ بھی اسی کی مثال ہے
بسی دنیا ہے ان کےدل میں، گو کہتے ہیں مومن ہیں
سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ فاعل 'ہم' نہیں ہیں جیسا الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے
دلوں کو پاک رکھنا تھا بسانا تھا وہاں رب کو
ہماری بد نصیبی ہے وہاں شیطان رہتا ہے
------------ وہی کمی یہاں بھی
ہمیں دل پاک رکھنا تھا، وہاں رب کو بسانا تھا
ایک تجویز جو اسے دور کر سکتی ہے

نِفاقِ دل بنی عادت یہی حالت ہے اکثر کی
نہیں کرتے جو کرنے کو ہمیں رحمان کہتا ہے
----------- 'بنی' کے صیغے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بار ایسا ہوا! ویسے بھی نفاق کا عادت بننا درست نہیں لگتا۔
نفاق دل کی بیماری میں ہم سب کی یہ حالت ہے
ایک تجویز

بُرا کہتے ہیں اوروں کو نظر خود سے چراتے ہیں
-------- یا
بُرائی خود میں ہوتی ہے نہیں ہم دیکھتے جس کو
ہمیشہ دوسروں کو ہی بڑا ،انسان کہتا ہے
------------ پہلا متبادل تو بحر سے خارج ہے، اور فاعل سے بھی! شعر کا مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ہاں 'بُرا' کہہ سکتے ہیں 'بڑا' نہیں
پہلا اس طرح رواں اور واضح ہو گا
جو خود اپنی برائی ہے، نظر آتی نہیں ہم کو

مسائل حل تبھی ہوں گے اگر رستے کو بدلو گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
-------------- یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا، جب تک رستہ نہیں بدلو گے، تب تک مسائل حل نہیں ہو سکتے کہنا چاہیے تھا۔ 'اگر' لفظ کنفیوژن پیدا کرتا ہے۔ گویا شاعر نہیں چاہتا کہ لوگ رستہ بدلیں! 'جو تم یہ راہ بدلو گے' درست ہو سکتا ہے
 
الف عین
بسی دنیا ہے ان کےدل میں، گو کہتے ہیں مومن ہیں
منافق کی نشانی ہے یہی قرآن کہتا ہے
-----------
ہمیں دل پاک رکھنا تھا، وہاں رب کو بسانا تھا
ہماری بد نصیبی ہے وہاں شیطان رہتا ہے
--------
نفاق دل کی بیماری میں ہم سب کی یہ حالت ہے
نہیں کرتے جو کرنے کو ہمیں رحمان کہتا ہے
----------
جو خود اپنی برائی ہے، نظر آتی نہیں ہم کو
ہمیشہ دوسروں کو ہی برا ،انسان کہتا ہے
------------
مسائل حل تبھی ہوں گے جو تم یہ راہ بدلو گے
کرو توبہ ، بنو مومن ، خدا ہم سے یہ کہتا ہے
--------------
 

الف عین

لائبریرین
اب درست ہو گئی غزل۔ لیکن اس پر غور کریں کہ پہلی غیر اصلاح شدہ غزل میں کیا اغلاط تھیں! اور میں نے کیوں اصلاح دینے سے پہلے اسے خود دیکھنے کا مشورہ دیا تھا (جو افسوس کہ آپ تب بھی خود درست نہیں کر سکے۔
 
Top