ناصر کاظمی کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

NAZRANA

محفلین
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

کلامِ ناصر کاظمی
 
ج

جہانزیب

مہمان
واہ بہت خوب غزل ارسال کی ہے آپ نے ناصر کاظمی کی شاعری میں سادگی اور گہرائی کے کیا کہنے ہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے ۔ ناصر کاظمی

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کر کے مجھے

میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستانوں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے

تیرے فراق کی راہیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے

ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل یونہی انتظار کرتا ہے

شہرِ گل میں کٹی ہے ساری رات
دیکھئے دن کہاں گزرتا ہے

دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے




۔۔۔ناصر کاظمی
 

ظفری

لائبریرین
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گذر گئی جرسِ گُل اداس کرکےمجھے

میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے

ترے فراق کی راتیں کبھی نہیں بھولیں گی
مزے ملے اُنہی راتوں میں عمر کے مجھے

میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے​
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل کیا یہاں موجود نہیں تھی اب تک؟ مطلع میں ’آنکھ بھر‘ ہونا چاہئے، نظر بھر‘ شاید ظفری کی ڈائری کی غلطی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ غزل کیا یہاں موجود نہیں تھی اب تک؟ مطلع میں ’آنکھ بھر‘ ہونا چاہئے، نظر بھر‘ شاید ظفری کی ڈائری کی غلطی ہے۔
استاد ِ محترم ! اس گستاخی کے لیئے معذرت خواہ ہوں ۔ دراصل میری ارسال کردہ ناصر کاظمی کی غزل اس لحاظ سے دیگر لوگوں سے منفرد تھی کہ اس میں مقطع نہیں تھا ۔ :)

ویسے میں نے مطلع میں " آنکھ بھر " ہی لکھا ہے ۔ شاید عنوان میں چُوک ہوگئی ہو ۔ آپ تو اپنے اس نالائق شاگرد کو جانتے ہی ہیں ۔ :praying:
 

محمد وارث

لائبریرین
ناصر کاظمی کی یہ انتہائی خوبصورت غزل ہے، مطلع کے تو کیا ہی کہنے۔ میں اس کا بیت الغزل ڈھونڈتے ڈھونڈتے ادھر آ گیا اور افسوس وہی اس میں نہیں ہے، سو یہ اس کو یہاں لکھنے کا شرف مجھے مل رہا ہے۔ :)

پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے ادھر ادھر کے مجھے
 
Top