کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
کلامِ ناصر کاظمی
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
کلامِ ناصر کاظمی