کسی کے پیار کو ہرگز بھلایا جا نہیں سکتا-----برائت اصلاح

الف عین
شاہد شاہنواز
-------------
کسی کے پیار کو ہرگز بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
------------
نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جا
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
------------
چلے آتے ہیں رہ رہ کر ،رکیں گے کب مرے روکے
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
-----------------
سدا رہتی ہے دل میں اک تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی ہٹانا تو ہٹایا جا نہیں سکتا
-----------
ابھی تک نغمہ زن ہےوہ تیری آواز کانوں میں
ترے انداز کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا
----------------
مقدّر میں جدائی تھی ، مقدّر کی ساہی کو
لہو کے آنسووں سے بھی مٹایا جا نہیں سکتا
----------------
ملاقاتوں کا ہر منظر سمایا ہے نگاہوں میں
بھلانا لاکھ میں چاہوں بھلایا جا نہیں سکتا
-------------
جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
کہیں سےعہدِ رفتہ بھی تو لایا جا نہیں سکتا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
-------------
کسی کے پیار کو ہرگز بھلایا جا نہیں سکتا
دیا روشن جو دل میں ہو بجھایا جا نہیں سکتا
درست۔۔۔

------------
نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جا
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
۔۔۔پہلا مصرع یا تو غلط ٹائپ ہوا، یا نظر سے گر گئے ہوں کے بعد جا کا مطلب فی الحال میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔۔۔ دوسرا مصرع درست لگتا ہے، تاہم پہلے مصرعے کے واضح ہونے پر ہی کچھ کہا جاسکتا ہے ۔۔۔

------------
چلے آتے ہیں رہ رہ کر ،رکیں گے کب مرے روکے
خیالوں پر تو تالا بھی لگایا جا نہیں سکتا
۔۔۔ ویسے ٹھیک ہے، لیکن ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے:
چلی آتی ہیں رہ رہ کے، رکیں گی کب مرے روکے
کوئی بھی قفل سوچوں پر لگایا جا نہیں سکتا ۔۔۔


سدا رہتی ہے دل میں اک تری تصویر آویزاں
میں چاہوں بھی ہٹانا تو ہٹایا جا نہیں سکتا
-----------درست
ابھی تک نغمہ زن ہےوہ تیری آواز کانوں میں
ترے انداز کا جادو بھلایا جا نہیں سکتا
----------------درست
مقدّر میں جدائی تھی ، مقدّر کی ساہی کو
لہو کے آنسووں سے بھی مٹایا جا نہیں سکتا
----------------مقدر کی سیاہی ۔۔۔ خیر یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔ تکنیکی خرابی صرف اتنی کہ جدید شعراء ایک ہی بات کو ایک مصرعے میں لانے کے بعد دوسرے میں بھی آنے نہیں دیتے۔۔۔ کجا یہ کہ آپ نے مقدر کا لفظ ایک ہی مصرعے میں دو بار استعمال کر لیا۔۔۔ جب تک اس سے کوئی لفظی یا معنوی خوبصورتی پیدا نہ ہوتی ہو، لفظ دہرانے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
ویسے میں مقدر کی سیاہی پر یقین نہیں رکھتا۔۔۔ یہ ذاتی اختلاف کہہ لیجئے ۔۔۔ اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔۔۔

ملاقاتوں کا ہر منظر سمایا ہے نگاہوں میں
بھلانا لاکھ میں چاہوں بھلایا جا نہیں سکتا
-------------درست
جوانی کی یہ باتیں ہیں بھلا دے اب انہیں ارشد
کہیں سےعہدِ رفتہ بھی تو لایا جا نہیں سکتا
۔۔ بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔۔۔ جیسے ہم یہ باتیں کہتے ہیں تو بتانا بعض اوقات ضروری ہوتا ہے کہ کون سی باتیں؟ یہ کی جگہ جو کیا جاسکتا ہے ۔۔
اسی طرح دوسرے مصرعے میں بھی کے ساتھ ساتھ تو کوئی خوبصورتی پیدا نہیں کر رہا، کچھ اور بہتر سوچ سکتے ہیں تو بہتر، بصورتِ دیگر یہی قبول کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
 
شاہد شاہنواز
------------
پہلے شعر میں کتابت کی غلطی
-----------
نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جو
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
-------------
دوسرا شعر
------------
 
شاہد شاہنواز
پہلا شعر کتابت کی غلطی
--------------
نظر آ بھی کہیں جائیں ،نظر سے گر گئےہوں جا
اُنہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا
----------یا
جو گِر جاتے ہیں نظروں سے انہیں سب بھول جاتے ہیں
انہیں پھر سے تو آنکھوں پر بٹھایا جا نہیں سکتا

دوسرا شعر
مقدّر میں جدائی تھی اسے میں روکتا کیسے
لکھا ہوتا ہے قسمت میں مٹایا جا نہیں سکتا
 
Top