ربیع م
محفلین
ذوق سخن کی دھوپ میں سیل ابر محبت جب آتا ہے
نامہ بھر مہکے ہوئے خط کا روز لفافہ جب لاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے ؟
میری یہ درخواست ہے تم ہر لمحہ ایسی سوچ سے ڈرنا
حضرت بل کی زیارت ہویا ڈل کے کنارے باتیں کرنا
باہم جنت ارض کو جا کر ہر اک منظر نظر میں بھرنا
ایسی تمناؤں کا طوفاں جب مرے دل سے ٹکراتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے
اپنے بے کل دل کی دہکتی کانگڑی کے انگارے لے کر
حرفوں کے آنچل میں بپھرے ہوئے جذبوں کے شرارے لے کر
وہ آکاش جو دامن میں چاہت کے جگمگ تارے لے کر
سوچ کی لمبی راتوں کو جب جھلمل جھلمل چمکاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے ؟
مجھ کو یہ تسلیم کہ یہ سب نفسانی تحریک نہیں ہے
مانا اس کا طرزتکلم اب وجہ تشکیک نہیں ہے
پھر بھی قلم کا اتنا شوخ اور چیخچل ہونا ٹھیک نہیں ہے
دل سیدھے الفاظ کو بھی جب الٹے معنی پہناتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے ؟
ڈرتا ہوں اپنے چہرے پر وہ نہ مری تصویر بنالے
ایسا نہ ہو اپنے جذبوں کو پیروں کی زنجیر بنالے
مجھ کو پاکستان سمجھ کر وہ خود کو کشمیر بنالے
دل ان ہونے خدشوں کی اس دلدل میں جب دھنس جاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے؟
زیادہ پکنے والے میٹھے پھل شاخوں پر سڑ جاتے ہیں
ربط جو برسوں میں بنتے ہیں وہ لمحوں میں بگڑ جاتے ہیں
سچے جذبے رکھنے والے اکثر لوگ بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹے خوابوں کاہر لمحہ جب پیہم دل تڑپاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے ؟
حرفوں اور لفظوں کی ہر پل سجی ہوئی باراتیں ہونا
باعفت رشتوں کے قلم سے رنگ برنگی باتیں ہونا
پاکیزہ صفحوں پر چاہ کی رم جھم سی برساتیں ہونا
فکر ناز خشک ورق بھی جب جل تھل سا ہو جاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے ؟
تعریفوں کے تارے بھرنا میرے فن کی مانگ میں لا کر
دل کے آئینے میں بھائی بہن کی اک تصویر سجا کر
بے خود کر دیتا ہے بربط دل کے سارے تارے ہلا کر
یہی نہیں کچھ بلکہ وہ ظالم جب شاعر بھی بن جاتا ہے
کسے خبر ہے کون اور کس کو کب اور کتنا یاد آتا ہے
آلودہ افکار کی زنجیر سے اگر آزاد رہیں گے
مجھ کو بے حد چاہنے والے لوگ یونہی گر شاد رہیں گے
تو مراوعدہ ہے وہ مجھ کو مرتے دم تک یاد رہیں گے
مجھ سا بے قیمت جب اتنا قیمتی عہد نبھا پاتا ہے
کسے خبر ہے ؟ کو؟ اور کس کو؟ اور کتنا ؟ یاد آتا ہے !
تم ہی کہو کچھ میری بہن کیا تمہیں خبر ہے ؟
پاکیزہ رشتوں کو آخر کس کا ڈر ہے ؟