عاطف ملک
محفلین
محمد تابش صدیقی بھائی کی تحریک اور ان کے مشوروں کے بعد یہ چند اشعار اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں تنقیدی و اصلاحی تبصرے کی امید پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
نعت رسولِ پاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کس زباں سے ہو تعریف ان کی بیاں؟ وہ کہاں میں کہاں!
میں ہوں خاک اور وہ نورِ کون و مکاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ رسوائے مخلوق و ننگِ جہاں، وہ کہاں میں کہاں!
ان کی تعریف کرتی ہے حق کی زباں، وہ کہاں میں کہاں!
وہ ہیں محبوبِ خُلّاقِ کل انس و جاں، وہ کہاں میں کہاں!
اور شان ان کی قرآن سے ہے عیاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ غرقاب عصیاں کے پاتال میں، سر سے پاؤں تلک
ان کے قدموں کے افلاک پر ہیں نشاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں ہوں وہ بے بصر نور سے بے خبر، حق نہ آئے نظر
ان کی آنکھوں سے پائے ضیا کہکشاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ اپنوں کو دل سے نکالے ہوئے، بیر پالے ہوئے
دشمنِ جاں کو وہ جان کی دیں اماں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ جود و سخا چھو کے گزری نہیں، اک ہنسی بھی نہیں
ان کے لطف و کرم کا ہے کوثر رواں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ احباب کا حق دبائے ہوئے، ظلم ڈھائے ہوئے
ان کے درباں کئی لاکھ نوشیرواں، وہ کہاں میں کہاں!
ہو گا حقِ محبت نہ ہرگز ادا ،گر میں دوں سب لٹا
وار دوں ان کی حرمت پہ اپنی یہ جاں، وہ کہاں میں کہاں!
عاطفِ بے نوا پر ہیں لاکھوں ستم، دور ہوں رنج و غم
بعدِ یزداں وہی مونس و مہرباں، وہ کہاں میں کہاں!
کس زباں سے ہو تعریف ان کی بیاں؟ وہ کہاں میں کہاں!
میں ہوں خاک اور وہ نورِ کون و مکاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ رسوائے مخلوق و ننگِ جہاں، وہ کہاں میں کہاں!
ان کی تعریف کرتی ہے حق کی زباں، وہ کہاں میں کہاں!
وہ ہیں محبوبِ خُلّاقِ کل انس و جاں، وہ کہاں میں کہاں!
اور شان ان کی قرآن سے ہے عیاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ غرقاب عصیاں کے پاتال میں، سر سے پاؤں تلک
ان کے قدموں کے افلاک پر ہیں نشاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں ہوں وہ بے بصر نور سے بے خبر، حق نہ آئے نظر
ان کی آنکھوں سے پائے ضیا کہکشاں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ اپنوں کو دل سے نکالے ہوئے، بیر پالے ہوئے
دشمنِ جاں کو وہ جان کی دیں اماں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ جود و سخا چھو کے گزری نہیں، اک ہنسی بھی نہیں
ان کے لطف و کرم کا ہے کوثر رواں، وہ کہاں میں کہاں!
میں کہ احباب کا حق دبائے ہوئے، ظلم ڈھائے ہوئے
ان کے درباں کئی لاکھ نوشیرواں، وہ کہاں میں کہاں!
ہو گا حقِ محبت نہ ہرگز ادا ،گر میں دوں سب لٹا
وار دوں ان کی حرمت پہ اپنی یہ جاں، وہ کہاں میں کہاں!
عاطفِ بے نوا پر ہیں لاکھوں ستم، دور ہوں رنج و غم
بعدِ یزداں وہی مونس و مہرباں، وہ کہاں میں کہاں!
آخری تدوین: