کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی تخلص بہ سودا)

کس سے بیاں کیجئے؟ حال دلِ تباہ کا،
سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تیری نگاہ کا

مجھ کو تیری طلب ہے یار تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میں‌یاں نہیں طور کوئی نباہ کا

دین و دل و قرار و صبر عشق میں‌تیرے کھو چکے
جیتے جو اب کہ ہم بچے نام نہ لیں‌گے چاہ کا

وصل بھی ہو تو دل میرا غم کو نہ چھوڑے ہجر کے
یہ تو ہمیشہ ہے رفیق وصل ہے گاہ گاہ کا

سودا سُنا ہے میں نے یہ اُس پہ ہوا تو مبتلا
رشک سے جس کی چہرے کے داغ جگر ہے ماہ کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
کس سے بیان کیجیے، حال دلِ تباہ کا ۔ سودا

خوبصورت غزل شئیر کرنے کا بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ اس غزل میں کچھ اشعار کم تھے۔ یہی غزل مکمل کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔

کس سے بیان کیجیے، حال دلِ تباہ کا
سمجھے وہی اسے جو ہو، زخمی تِری نگاہ کا

مجھ کو تِری طلب ہے یار، تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میں‌ یاں نہیں، طَور کوئی نباہ کا

دین، دل و قرار، صبر، عشق میں‌تیرے کھو چکے
جیتے جو اب کے ہم بچے نام نہ لیں‌ گے چاہ کا

زمزمے پر رکھے ہے تُو، مرغِ چمن کے گوشِ دل
نالہ کبھی سنا تو کر، اپنے بھی داد خواہ کا

حسن ترے کا اے صنم، ہے کہ و مہہ پہ نقش آج
تیری ادا پہ شیفتہ، دل ہے گدا و شاہ کا

وصل بھی ہو تو دل مِرا، غم کو نہ چھوڑے ہجر کے
یہ تو ہمیشہ ہے رفیق، وصل ہے گاہ گاہ کا

سودا سُنا ہے میں نے یہ اُس پہ ہوا تُو مبتلا
رشک سے جس کی چہرے کے داغِ جگر ہے ماہ کا

(مرزا رفیع سودا)
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب غزل مکمل کرنے کے لیئے آپ کا بیحد شکریہ۔۔خوش رہیں۔۔

محمد وارث صاحب، ظفری صاحب، پیاسا صحرا صاحب اور جیہ صاحبہ آپ سب کا بھی بیحد شکریہ۔۔خوش رہیں۔۔
 
Top