کاشفی
محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی تخلص بہ سودا)
کس سے بیاں کیجئے؟ حال دلِ تباہ کا،
سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تیری نگاہ کا
مجھ کو تیری طلب ہے یار تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میںیاں نہیں طور کوئی نباہ کا
دین و دل و قرار و صبر عشق میںتیرے کھو چکے
جیتے جو اب کہ ہم بچے نام نہ لیںگے چاہ کا
وصل بھی ہو تو دل میرا غم کو نہ چھوڑے ہجر کے
یہ تو ہمیشہ ہے رفیق وصل ہے گاہ گاہ کا
سودا سُنا ہے میں نے یہ اُس پہ ہوا تو مبتلا
رشک سے جس کی چہرے کے داغ جگر ہے ماہ کا
(مرزا محمد رفیع دہلوی تخلص بہ سودا)
کس سے بیاں کیجئے؟ حال دلِ تباہ کا،
سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تیری نگاہ کا
مجھ کو تیری طلب ہے یار تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میںیاں نہیں طور کوئی نباہ کا
دین و دل و قرار و صبر عشق میںتیرے کھو چکے
جیتے جو اب کہ ہم بچے نام نہ لیںگے چاہ کا
وصل بھی ہو تو دل میرا غم کو نہ چھوڑے ہجر کے
یہ تو ہمیشہ ہے رفیق وصل ہے گاہ گاہ کا
سودا سُنا ہے میں نے یہ اُس پہ ہوا تو مبتلا
رشک سے جس کی چہرے کے داغ جگر ہے ماہ کا