کس لیے اس نے مجھے رسوا کیا ..... اور... مجھے تم سے محبت ہو گئی کیا..... برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ دو غزلیات آپ کی خدمت میں چیکنگ کے لےے پیش کر رہا ہوں۔ وزن سے خارج مصرعے شاید نہ ملیں ، بہرحال مضمون ، روزمرہ و محاورہ کی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔
کس لیے اس نے مجھے رسوا کیا؟
میں نے اس کے ساتھ آخر کیا کیا؟؟
زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے
موت نے آکر مجھے زندہ کیا
جب کہا اس نے کہ مجھ کو بھول جا
سن کے میں نے ہر دفعہ الٹا کیا
عشق کی آواز میں نے تب سنی
حسن نے جب چیخ کر بہرا کیا
زندگی میری تھی جی لوں یا مروں
اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا؟
ہم گئے جاں سے ولیکن عشق میں
اس نے بھی جو کچھ کیا اچھا کیا
میں خدا کیسے کہوں محبوب کو
مجھ کو کب اس انس نے پیدا کیا
ایسے ویسے ہم اکیلے ہی نہ تھے
اس نے بھی ایسا کیا ویسا کیا
شہ نواز اس سنگ نے دل لے کے بھی
دور ہی سے دیکھ کر چلتا کیا
٭٭٭٭٭
مجھے تم سے محبت ہو گئی کیا؟
مری اتنی جسارت ہو گئی کیا؟
کہا تم نے کہ مت کرنا حماقت
محبت کی حماقت ہوگئی کیا؟
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
تمہیں مجھ سے شکایت ہو گئی کیا؟
بھلا کیوں صور پھونکا جارہا ہے؟
تو قائم پھر قیامت ہو گئی کیا؟
نظر آتی نہیں راہِ صداقت
بصارت بے بصیرت ہو گئی کیا؟
لگاتے ہو گلے رو رو کے مجھ کو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟
نہیں ہے نام بھی اب زخمِ دل کا
مرے دل کی جراحت ہو گئی کیا؟
ملی تھی زندگی دو چار دن کی
یہ صدیوں کی مسافت ہو گئی کیا؟
بھلا بیٹھے ہو میرا نام تک تم
طویل اتنی رفاقت ہوگئی کیا؟
یہ تم ہو سامنے یا آئنہ ہے
مری شکل و شباہت ہو گئی کیا؟
غزل لکھ لی ہے کیا تیرے ولی نے
ولی سے پھر کرامت ہو گئی کیا؟
محبت کیا ہے کوئی جنگ شاہد
وفا مال غنیمت ہو گئی کیا؟
 
اچھا کلام ہے۔ البتہ یہ ایک غلطی مجھے نظر آئی ہے۔ پہلی غزل کے مصرع

میں دفعہ کا تلفظ غلظ کیا گیا ہے۔ اس کا وزن فعلن ہے ۔فا علاتن کے علا پر ڈالنا درست نہیں ہے۔

لفظ دفعہ غیر شاعرانہ ہے بحوالہ نکاتِ سخن از: حسرت موہانی۔ مرتبہ کو موزوں کریں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت شکریہ آپ کی رائے کا۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شعر میں بھی غلطی ہے:
حسن نے جب چیخ کر بہرہ کیا۔۔۔
عیب تنافر موجود ہے کہ حسن اور نے ٹکرا رہا ہے۔۔۔ شاید۔۔۔۔
اب میں اصلاح کی طرف آتا ہوں۔۔۔
جب کہا اس نے کہ مجھ کو بھول جا
سن کے میں نے ہر دفعہ الٹا کیا۔۔
۔۔۔۔ تبدیل ۔۔۔
جب کہا اس نے کہ مجھ کو بھول جا
میں نے ایسا سن کے بھی الٹا کیا۔۔

عشق کی آواز میں نے تب سنی۔۔۔
حسن نے جب چیخ کر بہرا کیا۔۔
اسے یوں بھی لکھ سکتے ہیں:
عشق کی آواز میں نے تب سنی
شور نے جب حسن کے بہرا کیا۔۔۔
عیب تنافر مجھے قبول نہیں۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟
 

الف عین

لائبریرین
میں نے پہلی شکل کی اب اصلاح کی ہے۔

کس لیے اس نے مجھے رسوا کیا؟
میں نے اس کے ساتھ آخر کیا کیا؟؟
زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے
موت نے آ کر مجھے زندہ کیا
//اوپر کے سارے درست

جب کہا اس نے کہ مجھ کو بھول جا
سن کے میں نے ہر دفعہ الٹا کیا
÷÷ دفعہ کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔ شاہد کی اپنی تبدیلی ہی بہتر ہے

عشق کی آواز میں نے تب سنی
حسن نے جب چیخ کر بہرا کیا
÷÷یہ تبدیلی بھی قبول ہے۔

زندگی میری تھی جی لوں یا مروں
اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا؟
//یہاں جیوں یا مروں کا محل ہے، جی لوں کا نہیں۔ ل؛یکن کوئی اور صورت اس وقت سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

ہم گئے جاں سے ولیکن عشق میں
اس نے بھی جو کچھ کیا اچھا کیا
//دو لخت شعر ہے، ’ولیکن‘ آج کل متروک ہے۔ کیا یہ مراد ہے کہ محبوب کی وجہ سے ہی ہمارا انتقال ہو چکا؟ اگر یہ ہے تو شعر سے درست ابلاغ نہیں ہو رہا کیا یہ بہتر شکل ہے؟
عشق میں کھو بیٹھے اپنی جان ہم
اس نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا

میں خدا کیسے کہوں محبوب کو
مجھ کو کب اس انس نے پیدا کیا
//انس؟ کسرہ سے مراد انسان، ضمہ سے مراد محبت۔میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ مراد اِنس ہے، جو مستعمل نہیں، اور بغیر اعراب کے پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ اس لفظ کو نکال ہی دو۔ اور دوسرا کچھ واضح شعر کہو۔

ایسے ویسے ہم اکیلے ہی نہ تھے
اس نے بھی ایسا کیا ویسا کیا
//ایسا ویسا کرنا تو محاورہ ہے، لیکن ’ایسا کیا ویسا کیا‘ نہیں۔ اولیٰ مصرع میں بھی شاید یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ "ہم اکیلے ہی ایسے ویسے نہ تھے‘ لیکن مطلب یوں برامد ہو رہا ہے۔’ویسے ہم اکیلے نہ تھے، کوئی اور بھی ساتھ تھا‘ اس شعر کو بدل ہی دو۔

شہ نواز اس سنگ نے دل لے کے بھی
دور ہی سے دیکھ کر چلتا کیا
//دور سے محبوب نے دل کیسے لے لیا؟




مجھے تم سے محبت ہو گئی کیا؟
مری اتنی جسارت ہو گئی کیا؟
//درست

کہا تم نے کہ مت کرنا حماقت
محبت کی حماقت ہوگئی کیا؟
// کہا تھا تم نے مت کرنا حماقت
مگر ہم سے حماقت/محبت۔۔۔۔
کچھ بہتر ہے لیکن سوال کس سے ہے اور کیوں؟یہ اب بھی باقی ہے

مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
تمہیں مجھ سے شکایت ہو گئی کیا؟
//درست

بھلا کیوں صور پھونکا جارہا ہے؟
تو قائم پھر قیامت ہو گئی کیا؟
//اس شعر کا مفہوم؟ یا تو صور کو کسی چیز کا استعارہ بنایا جائے، کہ قیامت قسم کی کوئی چیز آ گئی ہے۔ لیکن اصل قیامت تو مجھے یقین ہے کہ اب تک تو آئی نہیں۔ ’پھر‘ تو یہ تجویز دیتا ہے کہ یہ وقوعہ بار بار ہو رہا ہے؟

نظر آتی نہیں راہِ صداقت
بصارت بے بصیرت ہو گئی کیا؟
//دوسرا مصرع تو بہت خوب، لیکن راہِ صداقت سے تعلق سمجھ میں نہین آیا۔

لگاتے ہو گلے رو رو کے مجھ کو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟
//درست
لیکن یوں بھی کیا جا سکتا ہے
گلے لگ کر جو ایسے رو رہے ہو
یا
گلے ایسے لگا کر رو رہے ہو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟

نہیں ہے نام بھی اب زخمِ دل کا
مرے دل کی جراحت ہو گئی کیا؟
//جراحت سے شاید تم نے جراحی مراد لیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اسے پھر سے کہو

ملی تھی زندگی دو چار دن کی
یہ صدیوں کی مسافت ہو گئی کیا؟
//درست

بھلا بیٹھے ہو میرا نام تک تم
طویل اتنی رفاقت ہوگئی کیا؟
//’تک تم‘ نا گوار لگ رہا ہے۔ اس کو یوں کہیں تو رواں ہو جائے
لو میرا نام تک تم بھول بیٹھے

یہ تم ہو سامنے یا آئنہ ہے
مری شکل و شباہت ہو گئی کیا؟
//مری شباہت ہوتی ہے یا مجھ سے مشابہت؟؟؟ اس لحاظ سے مصرع غلط ہے۔

غزل لکھ لی ہے کیا تیرے ولی نے
ولی سے پھر کرامت ہو گئی کیا؟
// لکھ دی کہنا بہتر ہے۔

محبت کیا ہے کوئی جنگ شاہد
وفا مال غنیمت ہو گئی کیا؟
درست، اگرچہ پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
میں نے پہلی شکل کی اب اصلاح کی ہے۔

کس لیے اس نے مجھے رسوا کیا؟
میں نے اس کے ساتھ آخر کیا کیا؟؟
زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے
موت نے آ کر مجھے زندہ کیا
//اوپر کے سارے درست

جب کہا اس نے کہ مجھ کو بھول جا
سن کے میں نے ہر دفعہ الٹا کیا
÷÷ دفعہ کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔ شاہد کی اپنی تبدیلی ہی بہتر ہے

عشق کی آواز میں نے تب سنی
حسن نے جب چیخ کر بہرا کیا
÷÷یہ تبدیلی بھی قبول ہے۔

زندگی میری تھی جی لوں یا مروں
اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا؟
//یہاں جیوں یا مروں کا محل ہے، جی لوں کا نہیں۔ ل؛یکن کوئی اور صورت اس وقت سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

ہم گئے جاں سے ولیکن عشق میں
اس نے بھی جو کچھ کیا اچھا کیا
//دو لخت شعر ہے، ’ولیکن‘ آج کل متروک ہے۔ کیا یہ مراد ہے کہ محبوب کی وجہ سے ہی ہمارا انتقال ہو چکا؟ اگر یہ ہے تو شعر سے درست ابلاغ نہیں ہو رہا کیا یہ بہتر شکل ہے؟
عشق میں کھو بیٹھے اپنی جان ہم
اس نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا

میں خدا کیسے کہوں محبوب کو
مجھ کو کب اس انس نے پیدا کیا
//انس؟ کسرہ سے مراد انسان، ضمہ سے مراد محبت۔میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ مراد اِنس ہے، جو مستعمل نہیں، اور بغیر اعراب کے پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ اس لفظ کو نکال ہی دو۔ اور دوسرا کچھ واضح شعر کہو۔

ایسے ویسے ہم اکیلے ہی نہ تھے
اس نے بھی ایسا کیا ویسا کیا
//ایسا ویسا کرنا تو محاورہ ہے، لیکن ’ایسا کیا ویسا کیا‘ نہیں۔ اولیٰ مصرع میں بھی شاید یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ "ہم اکیلے ہی ایسے ویسے نہ تھے‘ لیکن مطلب یوں برامد ہو رہا ہے۔’ویسے ہم اکیلے نہ تھے، کوئی اور بھی ساتھ تھا‘ اس شعر کو بدل ہی دو۔

شہ نواز اس سنگ نے دل لے کے بھی
دور ہی سے دیکھ کر چلتا کیا
//دور سے محبوب نے دل کیسے لے لیا؟




مجھے تم سے محبت ہو گئی کیا؟
مری اتنی جسارت ہو گئی کیا؟
//درست

کہا تم نے کہ مت کرنا حماقت
محبت کی حماقت ہوگئی کیا؟
// کہا تھا تم نے مت کرنا حماقت
مگر ہم سے حماقت/محبت۔۔۔۔
کچھ بہتر ہے لیکن سوال کس سے ہے اور کیوں؟یہ اب بھی باقی ہے

مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
تمہیں مجھ سے شکایت ہو گئی کیا؟
//درست

بھلا کیوں صور پھونکا جارہا ہے؟
تو قائم پھر قیامت ہو گئی کیا؟
//اس شعر کا مفہوم؟ یا تو صور کو کسی چیز کا استعارہ بنایا جائے، کہ قیامت قسم کی کوئی چیز آ گئی ہے۔ لیکن اصل قیامت تو مجھے یقین ہے کہ اب تک تو آئی نہیں۔ ’پھر‘ تو یہ تجویز دیتا ہے کہ یہ وقوعہ بار بار ہو رہا ہے؟

نظر آتی نہیں راہِ صداقت
بصارت بے بصیرت ہو گئی کیا؟
//دوسرا مصرع تو بہت خوب، لیکن راہِ صداقت سے تعلق سمجھ میں نہین آیا۔

لگاتے ہو گلے رو رو کے مجھ کو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟
//درست
لیکن یوں بھی کیا جا سکتا ہے
گلے لگ کر جو ایسے رو رہے ہو
یا
گلے ایسے لگا کر رو رہے ہو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟

نہیں ہے نام بھی اب زخمِ دل کا
مرے دل کی جراحت ہو گئی کیا؟
//جراحت سے شاید تم نے جراحی مراد لیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اسے پھر سے کہو

ملی تھی زندگی دو چار دن کی
یہ صدیوں کی مسافت ہو گئی کیا؟
//درست

بھلا بیٹھے ہو میرا نام تک تم
طویل اتنی رفاقت ہوگئی کیا؟
//’تک تم‘ نا گوار لگ رہا ہے۔ اس کو یوں کہیں تو رواں ہو جائے
لو میرا نام تک تم بھول بیٹھے

یہ تم ہو سامنے یا آئنہ ہے
مری شکل و شباہت ہو گئی کیا؟
//مری شباہت ہوتی ہے یا مجھ سے مشابہت؟؟؟ اس لحاظ سے مصرع غلط ہے۔

غزل لکھ لی ہے کیا تیرے ولی نے
ولی سے پھر کرامت ہو گئی کیا؟
// لکھ دی کہنا بہتر ہے۔

محبت کیا ہے کوئی جنگ شاہد
وفا مال غنیمت ہو گئی کیا؟
درست، اگرچہ پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
زندگی میری تھی جی لوں یا مروں
اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا؟
//یہاں جیوں یا مروں کا محل ہے، جی لوں کا نہیں۔ ل؛یکن کوئی اور صورت اس وقت سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔
زیست میری تھی جیوں یا میں مروں ۔۔۔ اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا۔۔ (یہاں مضمون وہی رہتا ہے لیکن شاید پہلا مصرع کمزور لگے یا زیست کے لفظ کا استعمال ٹھیک نہ ہوا ہو) ۔۔۔
زندگی میری تھی اس کا جو کروں۔۔۔۔۔اس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا (یہاں مضمون تبدیل کردیا گیا لیکن جو بات کہی گئی تھی وہ نہ رہی)
عشق میں کھو بیٹھے اپنی جان ہم
اس نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا (درست، ابلاغ بہتر ہے ، جو ولیکن کا استعمال میں نے کیا تھا وہ میر کی تقلید میں کیا تھا لیکن یہ سوچے بغیر کہ میر صاحب تو غالب کے زمانے کے ہیں بلکہ غالب بھی ان کو ’’کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا ‘‘ کہا کرتے تھے، یعنی وہ غالب کے لیے بھی ان کے بزرگوں کی طرح تھے (جو ممکن نہیں) ، سو ولیکن کا استعمال متروک سمجھنا ہی بہتر ہوگا)
میں خدا کیسے کہوں محبوب کو
مجھ کو کب اس انس نے پیدا کیا
//انس؟ کسرہ سے مراد انسان، ضمہ سے مراد محبت۔میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ مراد اِنس ہے، جو مستعمل نہیں، اور بغیر اعراب کے پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ اس لفظ کو نکال ہی دو۔ اور دوسرا کچھ واضح شعر کہو۔
کب مجھے انسان نے پیدا کیا ، لکھ سکتے ہیں لیکن عیب تنافر کامسئلہ ہوگا۔۔۔ لیکن شاید تنافر کو نظر انداز کرنا بہتر ہو۔۔۔ نہ ہو تو ایک اور صورت ہے:
میں خدا کیسے کہوں محبوب کو۔۔۔ جب خدا نے ہی مجھے پیدا کیا۔۔۔ (یہاں شاید ابلاغ کا مسئلہ ہو)
ایسے ویسے ہم اکیلے ہی نہ تھے
اس نے بھی ایسا کیا ویسا کیا
//ایسا ویسا کرنا تو محاورہ ہے، لیکن ’ایسا کیا ویسا کیا‘ نہیں۔ اولیٰ مصرع میں بھی شاید یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ "ہم اکیلے ہی ایسے ویسے نہ تھے‘ لیکن مطلب یوں برامد ہو رہا ہے۔’ویسے ہم اکیلے نہ تھے، کوئی اور بھی ساتھ تھا‘ اس شعر کو بدل ہی دو۔(یہ شعر ہمیں بھی احمقانہ لگ رہا تھا ۔۔۔ اب اس کی جگہ ہے:
جان دینے کو اسے ہم دے بھی دیں
پیار کا اس نے مگر دھوکہ کیا
شہ نواز اس سنگ نے دل لے کے بھی
دور ہی سے دیکھ کر چلتا کیا
//دور سے محبوب نے دل کیسے لے لیا؟(جواب ہے دل لینا الگ فعل ہے جو پہلے واقع ہوچکا، لیکن شعر اس کی وضاحت نہیں کررہا، لہذا اسے بھی بدل دیتے ہیں
شہ نواز اس نے ہمیں دیکھا مگر۔۔۔۔ دور ہی سے دیکھ کر چلتا کیا (کیا یہ ٹھیک ہے؟)
بہرحال پوری غزل میں صرف ایک دو اشعار ہی ہمارے دل تک پہنچے ہیں جن کے لیے ہم نے یہ غزل لکھی ، ورنہ ہمارا یہ مزاج نہیں۔۔۔اولا ایک ہی شعر ذہن میں آیا تھا زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے۔۔۔ موت نے آکر مجھے زندہ کیا۔۔۔ خیال اتنا اچھا لگا کہ پوری غزل اسی پر کہہ دی، کیا یہ شعر واقعی اس قابل تھا؟؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کہا تم نے کہ مت کرنا حماقت
محبت کی حماقت ہوگئی کیا؟
// کہا تھا تم نے مت کرنا حماقت
مگر ہم سے حماقت/محبت۔۔۔ ۔
کچھ بہتر ہے لیکن سوال کس سے ہے اور کیوں؟یہ اب بھی باقی ہے(رہنے دیتے ہیں)
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
تمہیں مجھ سے شکایت ہو گئی کیا؟
//درست
بھلا کیوں صور پھونکا جارہا ہے؟
تو قائم پھر قیامت ہو گئی کیا؟
//اس شعر کا مفہوم؟ یا تو صور کو کسی چیز کا استعارہ بنایا جائے، کہ قیامت قسم کی کوئی چیز آ گئی ہے۔ لیکن اصل قیامت تو مجھے یقین ہے کہ اب تک تو آئی نہیں۔ ’پھر‘ تو یہ تجویز دیتا ہے کہ یہ وقوعہ بار بار ہو رہا ہے؟ (درست ۔۔۔ یہ پرانی طرز پر ہے کہ جیسے انسان مرتا نہیں اور مرنے کے بعد کے شعر بھی لکھ سکتا ہے، اسی طرح قیامت آئی نہیں لیکن جب آئے گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ تاہم فی الحال بے محل ہے، اس کو بھی یہیں چھوڑتے ہیں)

نظر آتی نہیں راہِ صداقت
بصارت بے بصیرت ہو گئی کیا؟
//دوسرا مصرع تو بہت خوب، لیکن راہِ صداقت سے تعلق سمجھ میں نہین آیا۔(میرا خیال اس پر یہ ہے کہ جب بصارت میں بصیرت باقی نہیں بچتی تو راہ صداقت نظر نہٰیں آتی۔۔ اسی طرح راہ صداقت کا نظر نہ آنا اس بات کی دلیل کہاجاسکتا ہے کہ بصارت میں بصیرت کی کمی ہے)

لگاتے ہو گلے رو رو کے مجھ کو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟
//درست
لیکن یوں بھی کیا جا سکتا ہے
گلے لگ کر جو ایسے رو رہے ہو
یا
گلے ایسے لگا کر رو رہے ہو
مجھے حاصل شہادت ہو گئی کیا؟
(بے شک۔۔۔ مجھے پہلی تجویز اچھی لگی یعنی گلے لگ کر جو ایسے رو رہے ہو)
نہیں ہے نام بھی اب زخمِ دل کا
مرے دل کی جراحت ہو گئی کیا؟
//جراحت سے شاید تم نے جراحی مراد لیا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اسے پھر سے کہو (نہیں ہے نام بھی اب زخم دل کا۔۔۔ تو دل سے دور الفت ہوگئی کیا۔۔۔ ایک اور صورت ہے: نہیں ہے نام بھی اب زخم دل کا ۔۔۔ عطا اس دل کو نعمت ہو گئی کیا۔۔۔ اس میں نعمت خود ایک سوال ہے ، جائز ہے کہ نہیں؟)
ملی تھی زندگی دو چار دن کی
یہ صدیوں کی مسافت ہو گئی کیا؟
//درست
بھلا بیٹھے ہو میرا نام تک تم
طویل اتنی رفاقت ہوگئی کیا؟
//’تک تم‘ نا گوار لگ رہا ہے۔ اس کو یوں کہیں تو رواں ہو جائے
لو میرا نام تک تم بھول بیٹھے (درست)

یہ تم ہو سامنے یا آئنہ ہے
مری شکل و شباہت ہو گئی کیا؟
//مری شباہت ہوتی ہے یا مجھ سے مشابہت؟؟؟ اس لحاظ سے مصرع غلط ہے۔ (شعرہی کوچھوڑ دیتے ہیں)

غزل لکھ لی ہے کیا تیرے ولی نے
ولی سے پھر کرامت ہو گئی کیا؟
// لکھ دی کہنا بہتر ہے۔ (درست)

محبت کیا ہے کوئی جنگ شاہد
وفا مال غنیمت ہو گئی کیا؟
درست، اگرچہ پہلا مصرع بہتر ہو سکتا ہے (یقینا لیکن میں اسے خراب نہ کردوں، یہ ڈر ہے، اس لیے یہیں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ آگے دیکھا جاسکے)
میں بہت شکر گزار ہوں کہ اتنے کاٹھ کباڑ سے کچھ اشعار کام کے نکل آئے۔۔
 
غالب میرؔ کو استاد کہتے تھے بجا۔ لیکن اکثر چیزیں ایسی ہیں جو متروک مانی اور سمجھی جاتی ہیں۔ حالانکہ میر یا غالب نے ان الفاظ کو استعمال کیا مگر ان کا استعمال آج کے دور کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔
جیسے الفاظ ”ٹک“، ہووے، جاوے، اسی طرح لفظ ”نے“ حذف کرنا۔
میر سے سیکڑوں جگہ ثابت ہے :
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا

یوں خاک میں ملا یاں اس بن کہ کچھ نہ پوچھو
اس ظلم دیدہ دل کا ہم اضطراب دیکھا

ہم نے یا میں نے سے ”نے“ کو حذف کرنا عام تھا۔ لیکن اسے اب اسے ایسے استعمال کرنا متروک بلکہ مکروہ ہی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایسے بہت سے الفاظ میں فیس بک پر بھی کسی کو استعمال کرتے دیکھتا ہوں تو روکنے کا جی چاہتا ہے، حوصلہ افزائی کا نہیں۔۔۔ وجہ یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں لوگوں کو میری بات کا ادراک ہو۔۔۔ نہ کہ سردردی کا باعث بنے۔۔ بہرحال ولیکن کا لفظ دلچسپ لگا تھا، تو استعمال کردیا یونکہ مجھے جملے بنانے کی عادت ہے۔۔۔ جیسے آپ کی پروفائل کے نیچے لکھا ہے علم عروض سیکھیں ۔۔۔ اس سے ایک مصرع ذہن میں آرہا ہے۔۔۔ آئیے ہم مل کر علم عروض سیکھیں۔۔۔ لیکن میں اس سے زیادہ متاثر نہیں ہورہا، ورنہ شعر کہنے پر بھی غور کرتا۔
 

الف عین

لائبریرین
درست ہیں شاہد وہ اشعار جو تم نے خود روائز کئے ہیں۔ ایسی ہی اصلاحیں مجھے پسند آتی ہیں، جب میں اغلاط کی نشان دہی کروں اور شاعر اس کو خود ہی سدھار لے۔
 
Top